شیخ طیب!!!

0
833
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! کالم کی تنگ دستی کی وجہ سے میں شیخ طیب کے حوالے سے اپنا کالم مکمل نہ کر سکا جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ شیخ صاحب اور میاں اشرف کےساتھ ایک بھرپور زندگی گزاری، جب مجھے رئیس شہر بشیر قمر نے شیخ طیب کی رحلت کی خبر دی چالیس سال کی د وستی کی ایک فلم چلنی شروع ہو گئی اور میں اس سوچ میں غرق ہو گیا کہ 29جولائی 1980ءکی شام کو ملنے والی یہ بلی بلی آنکھوں کیساتھ مسکرانا سوٹڈ بوٹڈ شخص دوستوں سے ہاتھ چھڑا کر ہم سب سے دور چلا گیا۔ 29 جولائی میری شادی کا دن تھا۔ شاہین ریسٹورنٹ جیکسن ہائٹ میں فنکشن تھا ،اس شام میری ملاقات ان سے ہوئی اور میں نے ان کو فنکشن میں شرکت کی دعوت دی بس پھر ان سے سلام دعا کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ 1987ءمیں جب میں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تو شیخ صاحب سے دوستی کا ایک نیا تعلق شروع ہوا جب انہیں پتہ چلا کہ میں سردار ظفر اللہ کا بیٹا ہوں اور وہ شیخ عنایت اللہ بیڈن روڈ والے کے داماد ہیں۔ شیخ عنایت اللہ مرحوم ایک بہت بڑی شخصیت کے مالک تھے اور میرے والد صاحب کے بہت ہی گہرے دوست، شیخ صاحب پاکستان کونسل مسلم لیگ پنجاب کے صدر بھی تھے۔ پھر کیا تھا شیخ طیب ہمارے سر کے تاج تھے۔ ان کے دو برادر نسبتی میرے کلاس فیلو، ان کی دو سالیاں میری بڑی ہمشیرہ کی کلاس فیلو اور بیگم شیخ طیب میری چھوٹی ہمشیرہ کی ٹیچر۔ اتنے سارے تعلق کے بعد پکی دوستی کے ر شتے میں بندھتے چلے گئے۔
قارئین وطن! دوستوں کا بچھڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور شیخ طیب جیسا شخص جو شام ہوتے ہی اپنے اندر دوستوں کے ایک ہجوم ناز کو لے کر چلنے والا، ہماری دوستی کا ایک زمانہ وہ تھا جب ملک اشتیاق، شاہد چغتائی، میاں فرخ، حفیظ (بل گیٹ) خادم اور میاں اشرف، جوہر میر کےساتھ شام کی گپ شپ کا سیشن ہوتا۔ شیخ طیب نیویارک ٹائم کے اوپر پیج کو پڑھ کر آتے اور ہم لوگوں کو امریکن فارن پالیسی کے بارے میں بتاتے تھے۔ ہم لوگ بڑی سنجیدگی کےساتھ بڑے انہماک کےساتھ ان کی باتیں سنتے ،ایک دن مجھے بھی اتفاق ہوا اوپر پیج کو پڑھنے کا بس اس شام اپنے سینئر سے لڑائی ہو گئی۔ ہمارا لڑکپن تھا ،ان کی میچورٹی تھی۔ انہوں نے بھانپ لیا کہ اب شاگرد پر نکالنے لگا ہے پھر نیویارک ٹائم کا ذکر محفل میں نہیں ہوا۔ قارئین! میں کالم لکھ رہا ہوں اور یہ سوچ رہا ہوں کہ اتنا بڑا آدمی کیسے اتنی جلدی چھوڑ کر چلا گیا۔ پاکستانی کمیونٹی میں اگر کوئی شخص اپنی وجاہت اور خوبصورتی کےساتھ خوش لباس بھی تھا تو وہ شیخ طیب تھے۔ شیخ طیب کی پوٹھوہاری سننے کا بڑا مزا آتا تھا جب وہ دانش عصر مقصود جعفری کے ساتھ بولتے جو ان کےساتھ گارڈن کالج میں پڑھے تھے ۔ہمارے شیخ طیب نام کے شیخ تھے کنجوس نہ تھے۔ وہ مجھے شاہد چغتائی اور بل گیٹ کو اکثر مین ہیٹن فرنچ ریسٹورنٹ میں لے جاتے اور بل نہ کسی کو دینے د یتے۔ شیخ طیب کےساتھ ایک مرتبہ لاہور میں ملنے کا اتفاق ہوا ہم دونوں خاص طور پر پاک ٹی ہاﺅس میں گئے اور تقریباً دو گھنٹے وہاں گزراے اس کے بعد وہ مجھے پی سی لے گئے ان کا کمال یہ تھا کہ ہر طرح کی ڈش کھلاتے لیکن جب سوئیٹ ڈش کی باری آتی تو مٹھائی کا ایک ٹکڑا اٹھاتے اور سب کےساتھ شیئر کرتے۔ ہم تمام دوست ان کی اس حرکت پر ہنستے تو وہ کہتے کہ میٹھا پیٹ بھرنے کیلئے نہیں ہوتا بس ٹیسٹ کیلئے ہوتا ہے خیر یہ تو ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ ہم نے میٹھے کو کیا کرنا ہے اتنا بڑا دوست ہم سب سے جُدا ہو گیا ہے ،وہ شیخ طیب جو سوٹڈ بوٹڈ اب ہم میں نہیں رہا چالیس سال کا دوستانہ پل بھر میں ختم، جہاں وہ اپنے بھائیوں، اپنے بچوں، بیگم، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو تو سوگوار کر گیا ہے وہیں ہم دوست جو اب خود حالت روزگار کی وجہ سے بکھر گئے ہیں ہم بھی سوگوار ہیں۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ میں اپنے شیخ طیب کو کندھا بھی نہ دے سکا اور بہت سے دوست بھی کورونا جیسے موذی مرض کے خوف میں مبتلا ہیں، اللہ پاک شیخ طیب کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here