قارئین وطن! موت ہو یا بیماری جب دروازہ کھٹکھٹاتی ہے نہ امیر دیکھتی ہے نہ غریب ،میں نے ستمبر کو لاہور کے لئے سفر شروع کیا ،بڑے اچھے اچھے خواب زعفرانی کھانوں کی طرح چن رکھے تھے کہ اِس بار یہ کروں گا وہ کروں گا دوستوں کا ایک ہجوم بھی آگے پیچھے وطن کی مٹی کو چومنے پہنچ رہا ہے، خوب مزے ہوں گے ،کوئی شام میری طرف ہوگی، کوئی ریاض کھوکھر صاحب ، کوئی نواب زادہ میاں ذاکر نسیم تو کوئی میاں وحید مغل صاحب کے ساتھ ثمیر خان صاحب اور ملک سجاد ایمن آبادی نے بھی ملاقات کا وعدہ کر رکھا تھا میری سب سے بڑے خالہ زاد بھائی چوہدری طاہر اکرام آف ایمن آباد نے کہہ رکھا تھا سردار جی اس بار تمہارے سب دوستوں کا بڑا کھانا کروں گا اور شیخ عادل عرف بنی بھائی میری چھوٹی خالہ زاد سب مہمانوں کو میری طرف سے محبت بھرے پھولوں کا گلدستہ پیش کریں گے –
ہائے مادرچہ خیالم و فلک درچہ خیال است
کہ زمین والا کچھ سوچتا ہے اور آسمان والا کچھ
لاہور پہنچنے سے پہلے ہی میرا بڑا بھائی چوہدری طاہر اکرام منوں مٹی تلے ابدی نیند سو رہا تھا، ہمت اتنی شکست خوردہ ہو گئی کہ آنکھ بھر کر اس مٹی کو نہ دیکھ سکا جس نے چوہدری طاہر کو اپنے اندر سمیٹا ہوا تھا ،اللہ پاک مغفرت فرمائے ،درجات بلند کرے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، ہماری بھابھی اور بچوں کو صبرِ جمیل عطا کرے اور ہمارے بھتیجے چوہدری شیری اکرام کو اللہ پاک مقام طاہر عطا کرے آمین –
قارئین وطن! جیسا کہ میں نے کہا آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے ،گھر پہنچا تو دوسرے روز میرے نظام کے انچارج شاہد وٹو صاحب کو ڈینگی ہوگیا، سب پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے ،مہمان داری کا نظام کھڈے لائن لگ گیا میں نہ کسی دوست کو اور نہ ہی کسی احباب کو اپنی آمد کی خوشی میں مدعو کر سکا ،یہ تو مہر بانی تھی اقبال کھوکھر صاحب چیئرمین حبیب جالب مرحوم غریب خانہ کو عزت بخشنے اپنے بھانجے کے ساتھ تشریف لائے – پھر افضل گل بہار صاحب سیالکوٹ سے تشریف لائے اور جتنی دیر قیام کیا بھتیجوں کے ساتھ بہار بن کر چھائے رہے پتا نہیں ان کی موجودگی میں ایک سالہ مچھر کب اور کس وقت مسکرا یہ اور مجھ کو لڑ گیا بیٹھے بیٹھے ہر چیز برف کا گولہ لگا ،بخار اپنے عروج پر پہنچنے لگا چیک کیا تو پتا چلا جسم کی تپش Tylenol کی دو گولیاں کھائیں، سالے مچھر کو مارنے کے لئے صبح تک بخار آنکھ مچولی کھیلتا رہا دوسرے دن شام کو نواب صاحب کی آمد آمد تھی اور جسم جیسے بخار کی چکی میں پس رہا تھا ان کی نوازش کہ مجھ کو زبردستی چیک آپ کروانے کے لئے بلڈ ٹیسٹ کے لئے بھیجا بس پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ مجھ کو بھی سالہ مچھر لڑ پڑا سب جانتے ہیں کہ سردار نصراللہ کئی بدمعاشو ں ،لٹیروں اور قوم کو لوٹنے والوں سے لڑا لیکن اس سالے مچھر سے نہیں لڑ سکا اور ڈینگی کا شکار ہو گیا افسوس کہ رئیس شہر لاہور تشریف لائے اور میں اپنے محسن کی خدمت نہیں کر سکا میں نواب زادہ میاں ذاکر نسیم ، چوہدری فیض آف گجرات اور عطا اللہ شاہ بخاری کے نواسہ پیر بخاری صاحب پھلوں کی ٹوکری اور پھولوں کے گلدستوں کے ساتھ عیادت کے لئے تشریف لائے ،اللہ پاک ان دوستوں کو خوش و خرم رکھے کہ ایسے دوست حوصلہ ہوتے ہیں ۔
قارئین وطن! جیسا کہ میں نے کہا موت اور بیماری جب کسی کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے توپوچھے بغیر چلی آتی ہے، میں منتظر تھا میاں وحید اپنے بیک بون کا میری سیاست میری فکر اور سوچ کا دن رات کا ساتھی اور ان کے بڑے بھائی میاں حفیظ مغل کا بیتابی سے انتظار کر رہا تھا کہ جب میں ہسپتال میں گرا ہوا تھا۔ میاں صاحب کا فون آیا کہ میاں حفیظ اب ہم میں نہیں رہے، اللہ اللہ کیسے سانس اکھڑی ،کیوں کر اکھڑی ،یہ میرا رب ہی جانتا ہے، اب دعا کے سوا اور ہمارے پاس کیا ہے کہ اللہ پاک میاں حفیظ کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے اور تمام اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا کرے، امین! لاہور ڈینگی سے بھرمار شہر ہے بہت سارے بہن بھائی اس موذی مرض میں مبتلا ہیں اللہ پاک سب کو سلامتی دے اور آپنے حفظ و آمان میں رکھے آمین-
قارئین وطن ! کالم کے چھپنے تک سپریم کورٹ بار کا الیکشن ہو جائے گا انشاللہ اگلے کالم میں حالات درج کروں گا اس بار استاد لطیف کھوسہ اور شاگرد احسن بھون کے درمیان بڑا کانٹے کا مقابلہ ہے میں جن وکیلوں کی گود میں جوان ہوا ہوں اور آج کا وکیل کیا کہوں حال دلِ زار اے ادا، ہم نے آوارگی میں زمانے کی سیر کی، سلیمان کھوکھر صاحب الیکشن والے دن لاہور تشریف لا رہے ہیں، میرا اپنا چھوٹا سا کیمپ ہو گا،الیکشن کا آنکھوں دیکھا حال اور مزے مزے کے تبصرے میرے ذمہ اس بار ایک ووٹ ہے، سابق جج شیخ جاوید سرفراز کا کہ لطیف کھوسہ صاحب کو ڈلواں اب دیکھئے وہ کیا سلوک کرتے ہیں ،رول آف لا کہیں ہے اور نہ نظر آ رہا ہے چرچا بہت ہے –
٭٭٭