نجی بجلی گھر کا سکینڈل!!!

0
168
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق

mukarampeer@gmail.com

نجی بجلی گھروں IPPS کا معاملہ پچھلے دنوں سامنے آنے والا ایک اور بڑا سکینڈل ہے جو کہ آٹے چینی کے مقابلے میں کہیں بڑا ہے اور اس میں بھی عمران خان کے قریبی لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔ 1994ءمیں بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں پہلی دفعہ بجلی کی کمی سے نپٹنے کیلئے یہ فیصلہ ہوا کہ نجی پرائیویٹ سیکٹر کو بھی بجلی پیدا کرنے کے عمل میں شامل کیا جائے اور اس مقصد کیلئے ایک بورڈ تشکیل دیا گیا جسے (PPIB) کا نام دیا گیا اور غالباً Hub Co اس سکیم کے تحت معرض وجود میں آنے والا پہلا بڑا جیکٹ تھا۔ اس کے بعد ہر آنے والی حکومت نے اپنی کارکردگی دکھائی اور کچھ نئے پراجیکٹ لگانے کی اجازت دی گئی اور کچھ پرانے پراجیکٹس میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی گئی، کافی پراجیکٹس اب نیب کی فائلوں میں بھی بند ہیں۔ ماضی اور دور حاضر کے حکومتیں ،ر کن بابر اعوان بھی انکوائری وغیرہ بھگت رہے ہیں۔ آئی پی پی بھی ایک مافیا بن کر سامنے آرہا ہے، کچھ عرصہ پہلے تک تو یہ بجلی گھر مالکان ماضی کی حکومتوں کو بین الاقوامی عدالتوں کی دھمکی دیتے رہے ہیں لیکن جب سے تحقیقاتی اداروں کے نرغے میں آگئے ہیں حکومت سے مذاکرات کی درخواست کر رہے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہی ہونگے کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ دنیا میں مہنگے نرخوں میں شامل ہیں۔ خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں ہندوستان، پاکستان کے مقابلے میں اپنی عوام کو کہیں ارزاں بجلی بیچ رہا ہے، مہنگی بجلی کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات پر منفی اثر پڑ رہا ہے ۔ظاہر ہے بجلی کے نرخ زیادہ ہونگے تو پیداواری قیمت زیادہ ہو گی۔ اس طرح سستی بجلی بنانے والے مقابلے میں پاکستان کو مات دے دیتے ہیں۔ ہندوستان میں دہلی میں 200 یونٹ بجلی کے گھریلو صارفین سے کوئی بل نہیں لیا جاتا ہے جبکہ 200 سے 400 یونٹ کے گھریلو صارفین کو بجلی کے نرخوں میں 50% رعایت دی جاتی ہے، پاکستان میں اس کے برعکس ایک سو یونٹ کے گھریلو صارف کو 600 روپے بل آتا ہے اور 200 کو 1000 روپیہ بل آتا ہے، مڈل کلاس طبقہ سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ ہے جسے سفید پوشی بھی برقرار رکھنی ہے اور کم از کم ایک واٹر کولر یا چھوٹا ایئر کنڈیشنر مہمان خانے میں لگوانا ضروری ہو جاتا ہے ،بیچارے کی آمدنی کا 40/50 فیصد تو بجلی گیس کے بلوں میں نکل جاتا ہے۔
اب آئیے ان IPPSکا حال دیکھئے جن کا آغاز 1994ءمیں ہوا تھا ،اب یہ تقریباً 42 یا 45 تک کی تعداد کو پہنچ گئے ہیں۔ مختلف ادوار کی حکومتوں سے ان کا معاہدہ تھا کہ یہ نجی گروہ بیس فیصد سرمایہ کاری کرینگے اور حکومت انہیں 80% قرضہ یا امداد فراہم کرے گی جو کہ بجلی کی فراہمی کی صورت میں انہیں حکومت کو واپس کرنی ہوگی۔ آغاز ہی سے ان منصوبوں میں پلانٹ اور پراجیکٹ کی over Invoicingہوئی یعنی زیادہ قیمتیں لگا کر اپنا حصہ مالکان نے نہیں ڈالا اور حکومتی معاونت کی رقم جو کہ پورے منصوبے کی 80 فیصد ہونی تھی اسی میں پراجیکٹ لگایا گیا، اپنا حصہ یعنی بیس فیصد کاغذات میں ہیرا پھیری کے ذریعے دکھا کر حکومت سے ملنے والا ایندھن مارکیٹ میں بیچ کر کماتے رہے۔ سب سے زیادہ بے ایمانی اس شق میں کی گئی جس کے تحت مالکان کو بجلی گھر چلانے کے بدلے پندرہ فیصد منافعہ ملنا تھا۔ پاکستانی کرنسی کے حساب سے انہوں نے ملی بھگت کر کے امریکی ڈالر میں لینا شروع کر دیا جو کہ پچھلے پانچ برس میں روپے کے مقابلے میں دو گنا ہو گیا، اس کے علاوہ بھی مالکان کئی بے قائدگیوں میں ملوث ہیں اور انہیں احساس ہے کہ اگر حکومت نے مکمل شفاف تحقیقات کروائیں تو مالکان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑےگا اگر عمران خان صدق دل سے غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے غریبوں کو سستی بجلی فراہم کروائیں ۔آج یہ کام ان کے کئے نسبتاً سہل ہوگا اگر بجلی کے دام کم ہونگے تو پاکستانی صنعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور دنیا بھر میں برآمدات کے میدان میں دوسرے ملکوں سے بہتر مقابلہ کر کے برآمدات کے ذریعے زیادہ فارن ایکسچینجز پاکستان کو دلوا سکتے ہیں۔ اس طرح انہیں ٹی وی پر آکر چندہ اکٹھا نہیں کرنا پڑےگا لیکن بد قسمتی سے آٹا، چینی سکینڈل کی طرح اس گھپلے میں بھی عمران خان کے قریبی ساتھی شامل ہیں۔ سر فہرست وزیراعظم کے مشیر خاص عبدالرزاق داﺅد، ندیم بابر اور ستم ظریفی ہے کہ اپنی ہی کابینہ کے انرجی وزیر جنرل ایوب کے پوتے عمر ایوب خان اور آٹا چینی مافیا کے رکن خسرو بختیار بھی ملزمان میں شامل ہیں۔ بقول شاعر!
تیر کھا کر دیکھا جو کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here