کامل احمر
ہمارے محترم دوست مبین احمد صاحب نے یہ کہہ کر!
”اگر نیت کا نتیجہ اچھا نہیں تو سمجھ لو نیت اچھی نہیں“ ہمیں بہت کچھ یاد دلا دیا ، دنیا اور پاکستان میں لیڈران، اور با اختیار لوگ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ بہت کچھ کرنے اور بھاشن دینے کے باوجود بھی حالات کیوں بگڑتے جا رہے ہیں۔ چرچل نے کہاتھا، کبھی ہتھیار مت ڈالو، کبھی نہیں کبھی بھی نہیں، اپنی نیت اچھی رکھو، اس کے نتیجے میں چرچل نے دوسری جنگ میں ہٹلر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور لندن کو محفوظ رکھا۔ قائداعظم کی نیت مثبت اور مضبوط تھی اورپاکستان بن گیا ۔ایوب خان نے ملک اپنے ہاتھ میں لے کر پاکستان کو دس سال میں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کامرانی سے روشناس کرایا۔ یہ ان لوگوں کیلئے مثال ہے جو کہتے ہیں فوج نے پاکستان کو ترقی سے روکا ہے ،یہ بھی ثابت کیا ایوب خان نے کہ کسی بھی حکومت کی کامیابی اور ترقی کیلئے کوئی نظام بھی کام کر سکتاہے اگر حکمران کی نیت ثابت قدم اور نیک ہو تو بہت سے انسانوں سے اس زمین سے جنم لے کر آسمان کو چُھو لیا، یہ ان کی نیت کا نتیجہ تھا ۔دوسری جنگ عظیم سے پہلے 1928ءمیں الیگزینڈر فلیمنگ نے پنسلین کی دریافت کی اور کروڑوں انسانوں کو نئی زندگی ملی۔ اس کے بعد تپ دق، ملیریا، جیسی موذی بیماری کا خاتمہ ہوا، ایک آسٹریلوی معالج نے پاکستان میں رہ کر کوڑھ کا علاج دریافت کر کے کوڑھ کو ختم کر دیا۔ وہ مسلمان نہیں تھے لیکن ایک بہتر انسان تھے جس نے انسانیت اور انسان کی بقاءکیلئے زندگی وقف کر دی اور یہ سب اس کی اچھی نیت کا نتیجہ تھا اور اللہ نے اس کی نیت کا صلہ د یا۔ ہمارے یہاں مذہبی علماءاپنی اپنی دوکان سجائے بیٹھے ہیں ،علاوہ اس کے کہ میڈیا نے اپنے اپنے بازار لگا رکھے ہیں اور یہ ان کیلئے معاشرے میں تفریح کے طور پر ہے۔ مولانا طارق جمیل بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی جن کا مذہب سے گہرا تعلق ہے۔ اہل تشیع علماءبھی شامل ہیں جو اپنے فرقے کو اپنی سمت میں لے جا رہے۔ ہمارے ملک میں مدرسوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اس میں پڑھنے (درس) والے بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہو چکی ہے، ان کو ایک ڈگر پر چلایا گیا ہے پھر فوجی خاندانوں اور ان سے جڑے عزیز و اقارب ، ہمارے جنرلز اور کرنلز سب اپنے اپنے طور پر دن رات اپنے مشن پر ہیں۔ وہ کوئی تنقید سننا پسند نہیں کرتے اور اپنی سمجھ سے کام کر رہے ہیں ۔ہم نے ایک ایسے ہی ریٹائرڈ کرنل سے پوچھا، نتائج کیوں اچھے نہیں آرہے ۔اس کا مطلب ان کی نیت ملک کو سنوارنے کی نہیں۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ عمران کچھ نہیں کر سکتا ،ملک فوج چلا رہی ہے۔ 22 شہری محکموں نے سربراہ ریٹائرڈ فوجی ہیں ہمیں ان کی قابلیت، ڈسپلن اور انتظامی امور کی مہارت بھی کوئی شبہ نہیں، ہمیں یقین ہے کہ وہ سویلین کی طرح کرپٹ بھی نہیں تو سوال یہ ہے کہ ملک میں بہتری کیوں نہیں، نتائج کیوں اچھے نہیں عوام جو غریب ہیں بے بس ہیں وہ کیوں لا تعداد مشکلات میں ہیں جواب ملتا ہے ان کی نیت کا نتیجہ ہے۔
ہم تو چاہتے ہیں اور شروع سے لکھتے رہے ہیں کہ ملک کا سب سے منظم اور طاقتور ادارہ ہماری فوج ہے، ہم چاہتے ہیں ملک سے سارے بدمعاشوں، رشوت خوروں، قاتلوں ،سیاسی مافیا کا صفایا کرے، عدلیہ پر نظر رکھے اور ایوب خان بن کر دکھائے۔ ہماری اس بات سے کسی کو چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں، ہماری طرح بن کر سوچے کہ پاکستان کو ایک خوشحال ملک کیسے بنایا جائے اور امریکہ بھی دوست بنا رہے لیکن امریکہ کی نیت کا بھی سوال ہے اور ہم اس نتیجہ پر آکر کھڑے ہیں کہ چاہے وہ عمران خان ہو اور چاہے باجوہ۔ اگر اچھی نیت ہے تو نتائج اچھے نکل سکتے ہیں۔ عمران خان کو روز روز کی بگڑتی صورتحال سے نپٹنے کیلئے مدد کی ضرورت ہے اور ساتھ میں عدلیہ کو بھی آنکھ دکھانے کی ضرورت ہے جو من مانی کر رہی ہے کہ تین لوگوں کے قاتل کو ملائیشیا سے پکڑ کر لانے کے بعد ان کو ضمانت دی گئی ہے ،خاص کر سندھ میں جو لاقانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چل رہا ہے اور بدعنوان، نا اہل لوگ ہر شعبہ میں چُن چُن کر پیسہ لے کربٹھائے گئے ہیں، ان سے صاف کرنا ہوگا اور یہ رشوت ستانی کی وبا ہسپتالوں میں بھی پہنچ چکی ہے کہ ایک مریض جو کسی ہسپتال میں اپنے زخموں کی پٹی بدلوانے جاتا ہے تو اس سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔ وہ شخص کہتا ہے اگر تم ہسپتال نہ آسکو تو میں گھر میںپٹی باندھ دونگا۔ 500 روپے میں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے اس کی ر وک تھام کون کرے گا؟ کہ وڈیرہ یا حکومت میں شامل لوگ کراچی کے گرد و نواح میں پانی کی پائپ لائن کاٹ کر اس کا رخ اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے عرصہ پہلے ٹی وی پر دیکھا،ا س بگڑے ہوئے نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے حکومت اور فوج کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اللہ کو دن رات یاد کرنے سے یا حج کرنے سے حالات نہیں بدل سکتے اگر ہرکسی پاکستانی کی نیت ٹھیک نہ ہو۔ یوں سمجھ لیجئے ہمارا جسم ایک پودا یا درخت ہے جس کی سیرابی ہماری نیت کرتی ہے اور پھل ملتا ہے ورنہ ببول کا درخت ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ فوج بزنس کر رہی ہے کرے لیکن اپنے فرائض کو نہ بھولے سرحدوں کے علاوہ اندرونی حالات سے نبرد آزماہے اور اندرونی دشمن بے حد مضبوط ہو چکا ہے۔ حالیہ پی آئی اے کے جہاز کے حادثہ کی ذمہ داری مختلف اسباب سے بتائی جا رہی ہے اور یہ بیان سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ ایک ذمہ دار نے کہا ہے کپتان کی غلطی تھی کہ ٹاور نے بار بار کہا جہاز کو تین ہزار فٹ کی بلندی پر لاﺅ جبکہ وہ 8 ہزار فٹ بلندی پر تھا پھر کہاجاتا ہے کہ پرندہ انجن میں گُھس گیا ،یہ بھی کہ لینڈنگ گیئر پھنس گیا، خیال رہے کپتان اناڑی نہیں تھا ،وہ اب اس دنیا میں نہیں اور التجا کرتا ہوں کہ اپنی اپنی نیت دوسروں کے تعلق سے نیک رکھیں۔
٭٭٭