Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
پاکستان میں حال ہی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بعد رہائی کے سلسلے میں صوبہ سندھ کے پولیس سربراہ آئی جی مشتاق مہر کے اغواءپر بلاول بھٹو زرداری کی چیخ و پکار پر جنرل باجوہ نے تحقیقات کرنے کا وعدہ کیا جس کے نتائج پر فوجی ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس جاری کی کہ چونکہ مزار قائدپر کیپٹن صفدر کے نعروں پر فاطمہ جناح زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو پر فوجی افسران اتنے جذباتی ہو گئے کہ جنہوں نے سندھ پولیس کے انکار پر ان کے سربراہ آئی جی کو اغواءکر کے فوجی سیکٹر انچارج کے سامنے پیش کر دیا کہ آپ اپنی پولیس کے ہاتھوں کیپٹن صفدر کو گرفتار کریں جس کے بعد پولیس اور رینجرز نے ایک مسلمان اور مشہور سیاستدان مریم نواز کے ہوٹل کے کمرے کی چادر و چار دویاری کو پامال کرتے ہوئے ان کے سامنے گرفتار کیا جس کو جذباتی سرشاری میں چادر چار دیواری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، چونکہ علاقہ تھانے کی پولیس نے کیپٹن صفدر کےخلاف ایف آئی آر اس لئے درج کرنے سے انکار کیا تھا کہ جب تک مزار کا کسٹوڈین پولیس میں شکایت نہ کرے پولیس مزار کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے، اس لیے یہ معاملہ کئی گھنٹوں تک زور جبر کی نظر ہو گیا جس کے بعد چار فوجی افسران نے قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سندھ کے پولیس سربراہ کو اغواءکر کے اپنی مرضی کے مطابق مقدمہ درج کرایا جس کو سٹی کورٹ کراچی کے جج نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، جس کے بارے میں پولیس نے مزار کے واقعہ سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا جو اغواءکرنےوالی طاقتوں کے منہ پر چماٹ کے علاوہ کچھ نہ تھا لہٰذا مذکورہ بالا واقعہ میں جذبات میں سرشار فوجی افسران کے تبادلے کر دیئے گئے جبکہ نوازشریف نے فوجی تحفظات کی رپورٹ کو رد کر دیا ہے، حالانکہ فوجی افسران پر اغواءاور کمرے میں گھسنے کے مقدمات قائم ہونا چاہیے تاہم پاک فوج کے افسران میں واقعی بڑے جذبات پائے جاتے ہیں جنہوں نے جذبات سے سرشار ہو کر 1971ءمیں لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام کیا اور ہزاروںبنگالی خواتین کا ریپ کیا تھا جو آخر کار جذبات کے ہاتھوں بھارتی فوجوں کے ہاتھوں سرینڈر ہوئے ان ہی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر شیخ مجیب کو قید اور ملک کو توڑا گیا۔ جذبات پر فاطمہ جناح کو رسواءکیا گیا، نصرت بھٹو کا سر پھوڑا گیا اور بینظیر بھٹوکو قتل کیا گیا۔ جذبات سے تنگ آکر پاکستان کی منتخب حکومتوں کو برطرف پانچ مرتبہ آئین پامال اور ملک پر غیر قانونی اور غیر آئینی مارشل لاءنافذ کئے جذبات کے عالم میں پاکستانی صھافیوں کو اغواءاور لاپتہ یا قتل کیا گیا، جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بلوچوں کا قتل عام اور نوجوان بلوچوں کو اغواءکیا گیا۔ جذبات میں مبتلا ہو کر پاکستانیوں کو غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں بیچا گیا، جذبات کے ہاتھوںپ اگل ہو کر کارگل اور سیاچن کے علاقے بھارت کے ہاتھوں گنوا دیئے جذبات کے ہاتھوں مدہوش ہو کر پرائی جنگوں افغان جہاد یا فساد اور دہشتگردی میں حصہ لے کر پاکستان کو تباہ و برباد کیا گیا ہے بہر کیف سپہ سالار کے ترجمان نے کہا کہ فوج ایک ریاستی ادارہ ہے جو کہ مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ ریاستی ادارے صرف اور صرف پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ ہوتے ہیں جن کا آئین میں ذکر ہے، جبکہ فوج انتظامیہ کا محکمہ ہے جن کو آئین پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف وفاداری کے پاسدار رہیں جس کا مطلب حکومت کے احکامات پر عمل کرے و جو قانون کے مطابق ہوں جس میں کسی قسم کی فوجی عدالتوں اور مارشل لاﺅں اور مہم جوئیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے جو عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے چونکہ فوجی بے قابو افسران اپنے آپ کو قانون اور آئین سے بالا تر تصور کرتے ہیں جن کے پیشروﺅں نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا یا چند صفحات کا کتابچہ قرار دیا تھا جو اس آئین مقدسہ کو معطل یا منسوخ کر کے ردی میں پھینک دیتے ہیں۔ اس لئے وہ ادارہ اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان آج تک غیر جمہوری ریاست کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
جس کی پاداش میں وزیراعظم لیاقت علی خان، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیراعظم بینظیر بھٹو کا قتل ہوا، فاطمہ جناح کی لاش کو مسخ کر دیا گیا، بانی پاکستان کے احکامات سے انکار کیا گیا، سیاستدانوں حسین سہروردی، فاطمہ جناح، مجیب الرحمن، باچا خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، بھٹو، بینظیر بھٹو، اور نوازشریف کو غدار قرار دیا گیا ہے لہٰذا پاکستانی قوم کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ جذباتی کون اور کیوں ہیں تاکہ قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے۔
٭٭٭