وطن دوست یا دشمن!!!

0
304
جاوید رانا

 

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

میں اس وقت جب یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں، عالمی منظر نامہ قدرتی آفات خصوصاً کرونا کے باعث اور باہمی سیاسی چپقلشوں، عالمی سیاسی و معاشی مفادات و برتری کیلئے سازشی ہنگام سے بُری طرح متاثر نظر آتا ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے مابعد اثرات و کرونا کی شدت نے اس ملک میں امن و امان اور سکون کو جس بُری طرح متاثر کیا ہے، آپ سب ان اثرات کے حصار میں ہیں۔ ٹرمپ کے احتجاجی روئیے اور وباءسے تحفظ کیلئے غیر سنجیدگی پر جو کچھ یہاں کی صورتحال ہے اس کو ہم اور آپ سب بھگت رہے ہیں۔ ادھر وطن عزیز پاکستان میں بھی حالات کچھ مثالی نہیں ہیں، اُدھر وطن عزیز پاکستان میں سیاسی مخالفتوں اور مفادات کے ٹکراﺅ کے منفی روئیے خصوصاً شکست خوردہ اپوزیشن کے خود کو درپیش مخدوش مستقبل سے بچاﺅ کیلئے حکومت و ریاست سے محاذ آرائی کےساتھ پاکستان کی خطہ میں جغرافیائی و اسٹریٹجک اہمیت اور بھارت کی ازلی دشمنی کے تسلسل نے وطن عزیز کو چومکھی لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کےخلاف جو اندرونی و بیرونی سازشیں ہو رہی ہیں اور جس طرح بھارت اور اس کی مربی طاقتیں ففتھ جنریشن وار اور براہ راست اقدام میں مصروف ہیں، اس کا اندازہ ہفتہ رفتہ کے دوران ہونےوالے واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین سے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کی کھسیاہٹ دور کرنے کیلئے ایل او سی پر معصوم شہریوں پر حملے اور جواباً پاکستانی بہادر عساکر کی بھارتی فوج کی ذلت آمیز بربادی کےساتھ ہی ISPR کے ترجمان کی جانب سے بھارت کی پاکستان کےخلاف طویل عرصے سے دشمنانہ کارروائیوں کی تفصیل، افغانستان میں را کی ٹی ٹی پی، الطاف کے ایجنٹوں اور داعش کے ذریعے پاکستان اور عسکری قوتوں کےخلاف سازشوں، حملوں کے حوالے سے مکمل ڈوزئیر عالمی قوتوں اور اداروں کے علم میں لانے کا معاملہ جہاں بھارت کو پاکستان کی سلامتی پر کسی بھی ناپاک ارادے سے باز رہنے کا انتباہ تھا، وہیں اس حقیقت کابھی اظہار تھا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کابھرپور منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور تمام قوتیں اور عوام وطن کی بقاءکیلئے متحد ہیں۔ افسوس کہ اس ایشو پر حکومت تمام ریاستی ادارے اور عوام تو متحد و یکجا نظر آئے لیکن اپنے مفادات، عدالتوں اور سزاﺅں کے منطقی انجام نیز اپنی غیر مقبولیت کے طوفان میں گھرے ہوئے سیاسی مخالفین اس ایشو پر منہ میں گھونگیاں ڈالے رہے اور فوج و ریاست سے یکجہتی کا اظہار نہ کر سکے۔ دوسری جانب اقتدار کی دیوی سے محروم یہ سیاسی یتیم گلگت بلتستان کے انتخابات میں اپنے وجود کے تسلسل اور کسی بھی طرح عمران خان و اداروں کی تکفیر کی کوششوں میں لگے رہے، اس حقیقت کے علم کے باوجود کہ گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج وفاقی حکومت کے تناظر کے حق میں متعلقہ سیاسی پارٹی کو ملتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود یہ غرض کے کھلاڑی نہ صرف حکومت مخالف بیانیہ پر کمر بستہ رہے بلکہ لندن میں بیٹھے ہوئے مفرور سابق وزیراعظم اور مودی کی زبان بولنے والے نوازشریف کی بیٹی نے اپنی تقریروں میں گلگت بلتستان کی سی پیک کے حوالے سے خصوصی حیثیت اور اقوام متحدہ میں اس خطے سے متعلق قرارددوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بھارت کے نکتہ¿ نظر کو اُجاگر کرنے میں ہی اپنی مہم چلائی، کچھ یہی حال زرداری کے لاڈلے بلاول کا بھی تھا۔ اس کی ساری کیپئن عمران مخالفت اور لوگوں کو یہ انڈر اسٹینڈنگ دینے پر تھی کہ مقتدرین جی بی میں پیپلزپارٹی کو جتوائیں گے، ہوا بہر حال وہی کہ وفاق میں بر سر اقتدار پارٹی ہی کامیاب ہوئی۔ اب پیپلزپارٹی اور ن لیگ بشمول فضل الرحمن ووٹ کی چوری پری پول دھاندلی اور حکومتی و انتظامی بدنیتی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جی بی کے الیکشن کمشنر نے تو بلاول کے احتجاج پر واضح دعوت دیدی ہے کہ انتخابات کی شفافیت کیلئے جن حلقوں پر اعتراض ہو، اس کی دوبارہ کیمروں کے سامنے گنتی کرائی جا سکتی ہے تاکہ سچائی ساری قوم خود دیکھ لے۔
2018ءکے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور باریاں لگانے والی سیاسی پارٹیوں و شخصیات کی شکست نیز کمائی کے دروازے بند ہونےوالے لٹیروں نے شروع دن سے ہی محاذ آرائی پر کمر کسی ہوئی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وطن عزیز براہ راست و بالواسطہ دشمنوں کی سازشوں کا ہدف بنا ہوا ہے، ان نام نہاد رہنماﺅں کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور اس کے محافظوں کو کچھ ہوا تو ان کی سیاست اغراض و اقتدار کا بھی وجود نہ ہوگا۔ طرح طرح کے حیلوں، الزام تراشیوں اور منفی رویوں سے وہ اپنے مفاداتی ایجنڈے کو بروئے کار لانے اور موجودہ حکومت و ریاستی ڈھانچے کے درپے نظر آتے ہیں۔
دیکھا جائے تو اس وقت عمران خان کی حکومت کو تین اطراف سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت کے افغانستان میں موجود را کے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کےخلاف ففتھ جنریشن وار، دہشتگردی کی وارداتوں، ایل او سی پر بھارت کی خلاف ورزیوں، ملک کے اندر نام نہاد مذہبی و سیاسی جماعتوں کی حکومت مخالف سرگرمیوں کےساتھ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی کامیابی و حکومت سازی کےخلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا ایسے معاملات ہیں جو ملکی سالمیت کےخلاف اور دشمنوں خصوصاً بھارت کے حق میں جا سکتے ہیں۔ فرانس کے صدر کیخلاف خادم رضوی کا دھرنا بلاول کا صرف چار نشستیں حاصل کر کے پیپلزپارٹی کا وزیراعلیٰ (جی بی) لانے کیلئے شور شرابا اور بیک ڈور کوششیں اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت و ریاست مخالف پروپیگنڈا، کرونا کی شدت کے باوجود جلسوں، جلوسوں پر اصرار ہر گز وطن اور عوام کے مفاد میں نہیں ہو سکتا ہے۔ ان بظاہر قوم کے مخلص رہنماﺅں کی ساری سرگرمیاں دراصل محض بغض عمران نہیں بلکہ ملک و عوام کے مفادات کےخلاف ہیں۔ عوام کے خادم ہونے کے ان دعویداروں کے چہروں سے جھوٹ کے نقاب ہٹا کر ان کی اصلیت کو پہچاننا عوام کیلئے بہت ضروری ہے۔ یہ دوست نما دشمن ملک اور عوام کیلئے نقصان کا باعث بن جائیں، واضح رہے کہ قومیں اور مملکتیں بیرونی دشمنوں سے زیادہ اندر کے پوشیدہ دشمنوں سے خسارہ اٹھاتی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here