شبیر گُل
خاکے بنانے والے خاک میں مل جائیں گے لیکن میرے نبی کا ذکر ہمیشہ بلند رہےگا۔ تاجدار مدینہ ،ختم الرسل ،احمد مجتبیٰ، محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم۔ پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام۔مجاہد ختم نبوت،مولانا خادم حسین اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ رسول خدا کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف ،دبنگ آواز کی اچانک وفات پر پورا پاکستان سوگوار ہے۔ پاکستان میں بسنے والے اہل ایمان رسول اللہ کی عزت پر مر مٹنے کے لئے تیار رھتے ہیں۔لیکن عشق مصطفے اور محبت رسول کو مولانا خادم حسین نے ا±جاگر کیا اسکی پاکستان میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ شمع رسالت کے پروانے ، حضور اقدس کی شان میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کرینگے۔رسول اللہ سے جو عشق و محبت ہمارے خطے کے لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ اسکی جھلک مینار پاکستان پر مولانا کے جنازہ میں دیکھی گئی۔مولانا نے نواز شریف کے دور حکومت میں ممتاز قادری کی شہادت پر ایک غیر معمولی تحریک لبیک چلائی ، اور پھر عمران خان کے دور میں مولانا کی یہ دوسری بڑی تحریک تھی۔جب نواز شریف نے ختم نبوت کی آئینی شقیں تبدیل کرنے کی کوشش کی تو مرد مجاہد مولانا خادم حسین رضوی میدان عمل میں آئے۔ عاشقان رسول کے عوامی سمندر میں حکمرانوں کو ترامیم واپس لینے پر مجبور کیا۔مرحوم قاضی حسین احمد ، اوریا مقبول جان اور خادم حسین رضوی کو اقبالیات پر بہت عبور تھا۔ مولانا خادم حسین رضوی کو اللہ بارک نے کمال کا خافظہ دیا تھا۔ اقبالیات اور اور عشق مصطفے کا انتہائی معتبر نام تھے ۔ شیری مزاری ، ماروی سرمد، جبران ، اعتزاز احسن جیسے لبرلز مولانا کی گرج سے لرزتے تھے۔ آج چند سﺅر گستاخی کے مرتکب ہورہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں توہین آمیز خاکے مسلم ا±مّہ کے م±نہ پر طمانچہ ہے۔ جن ممالک میں یہ توہین آمیز گستاخی کی جاتی ہے۔ مسلم ممالک کو ہر قسم کا لین دین بند کر دینا چاہئے۔“ایک اور ستارہ بج گیا”رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے دبنگ ، نڈر، بیباک اور جرات مند آواز اللہ کے خضور پیش ہوگئے۔عاشقان مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کا دن اداسی کا دن تھا۔علامہ خادم حسین رضوی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ایک کرشماتی شخصیت تھے، تحریک لبیک کے سربراہ نے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا تھا۔برصغیر کی تاریخ میں پیر مہر علی شاہ اور خضرت عطاءاللہ شاہ ب±خاری صاحب بہت بڑی آواز تھے۔ جنہوں نے ختم نبوت کے علم کو بہت اونچائی پر پہنچایا تھا۔پھر عصر خاضر کے مجدد ،مولانا سید ابوالاعلی مودودی تھے جنہیں قادیانی مسئلہ کتاب لکھنے پر وقت کے ڈکٹیٹر نے پھانسی کی سزا س±نائی تھی۔لیکن مولانا نے کسی طرح بھی لچک دکھانے سے انکار کردیا۔اسلامی جمعیت طلبہ کے چھ کارکنان کی قادیانیوں کے ہاتہوں شہادت پر طلبہ تحریک نے ختم نبوت کے پروانوں کو ملک کے طول وعرض میں قادیانیوں کے خلاف ایک بڑی تحریک کی شکل دے دی۔جو بالآخر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر منتجع ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ کے متوالوں نے کسی نہ کسی شکل میں عشق مصطفے کی شمع روشن رکھی۔لیکن علامہ رضوی صاحب کا جاہ و جلال، اور جرا¿ت کے سامنے سبھی لبرلز اور حکمران ٹولہ لرزاں تھے۔ مولانا نے پورے پاکستان میں شمع رسالت کے پروانوں اور دیوانوں کو تحریک لبیک کی شکل میں کھڑا کرکے، لبرل مافیا اور طاغوت کی نرسری کو ملیا میٹ کردیا تھا۔ممتاز قادری کی شہادت پر مولانا نے بہت شہرت پائی۔لنڈے کے لبرلز مولانا کی تقاریر سے لرزتے تھے ۔ خادم حسین رضوی فرماتے تھے کہ ہم حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے دار ہیں۔ریاست مدینہ کے نام لیواو¿±ں نے عاشقان رسول پر تشدد ،آنسو گیس، پکڑ دھکڑ جاری رکھی ، مگر انکے پائہ استقلال میں کبھی کمی نہیں آئی۔وہ داناءس±بل ختم الر±سل،مولائے کل± جس نے غبار راہ کو بخشاءفروغ وادءسینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی فرقان وہی قرآن وہی یسن وہی طٰہ
اسکی لوری کےلئے لفظ کہاں سے لاو¿ں، سارے عالم کے مقدر کو جگایا جس نے، جس کے جہولے پہ ملائکہ نے ترانے چھیڑے، قیصر و کسریٰ کی منڈھیروں کو ہلایا جس نے ، دوش براق پہ پہنچے جو سر عرش بریں،وہ خلاو¿ں کے پیغمبر وہ فضاو¿ں کے رسول، (ساغرِ صدیقی)
خدا کا ذکر کرے۔ذکر مصطفے نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زبان ،خدا نہ کرے
وہ جنہیں پوری کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔جو مظلوموں کے ساتھی،یتیموں کا ماوہ، مسکینوں کےسرپرست اور دکھیاروں کا آنکھ کی ا±مید کی کرن۔صاحب حوض کوثر۔ کائنات کے سردار۔ نبیوں کے امام۔رسولوں کے رسول۔وجہ تخلیق کائنات۔وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والام±رادیں غریبوں کی بھر لانے والا۔ا±س جیسا نہ کوئی رحمدل تھا اور نہ محبت کرنے والا۔ا±س نبی¿ رحمت کے دیوانے علامہ خادم حسین رضوی عاشقان رسالت کی اگلی صف میں نظر آئینگے۔
مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب” سو عظیم شخصیات“ کو لکھنے میں 28 سال کا عرصہ لگایا ، اور جب اپنی تالیف کو مکمل کیا تو لندن میں ایک تقریب رونمائی منعقد کی جس میں اس نے اعلان کرنا تھا کہ تاریخ کی سب سے ”عظیم شخصیت“ کون ہے؟
جب وہ ڈائس پر آیا تو کثیر تعداد نے سیٹیوں ، شور اور احتجاج کے ذریعے اس کی بات کو کاٹنا چاہا، تاکہ وہ اپنی بات کو مکمل نہ کرسکے۔
پھر اس نے کہنا شروع کیا:
ایک آدمی چہوٹی سی بستی مکہ میں کھڑے ہو کر لوگوں سے کہتا ہے ”مَیں اللہ کا رسول ہوں“ میں اس لیے آیا ہوں تاکہ تمہارے اخلاق و عادات کو بہتر بنا سکوں، تو اس کی اس بات پر صرف 4 لوگ ایمان لائے جن میں اس کی بیوی، ایک دوست اور 2 بچے تھے ۔
اب اس کو 1400 سو سال گزر چکے ہیں۔۔۔ مرورِ زمانہ کہ ساتھ ساتھ اب اس کے فالورز کی تعداد ڈیڑھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔۔۔ اور ہر آنے والے دن میں اس کے فالوروز میں اضافہ ہورہا ہے۔۔۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ شخص جھوٹا ہے کیونکہ 1400 سو سال جھوٹ کا زندہ رہنا محال ہے۔ اور کسی کے لیے کہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ ڈیڑھ ارب لوگوں کو دھوکہ دے سکے۔۔۔
ہاں ایک اور بات!
اتنا طویل زمانہ گزرنے کے بعد آج بھی لاکھوں لوگ ہمہ وقت اس کی ناموس کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔۔۔ کیا ہے کوئی ایک بھی ایسا مسیحی یا یہودی جو اپنے نبی کی ناموس کی خاطر حتیٰ کہ اپنے رب کی خاطر جان قربان کرے۔۔۔۔؟
بلا شبہ تاریخ کی وہ عظیم شخصیت ” حضرت محمد “ ہیں۔
اس کے بعد پورے ہال میں اس عظیم شخصیت اور سید البشر ﷺہیبت اور اجلاس میں خاموشی چھا گئی۔ ہم اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ ہمیں اپنے مفادات کی منافقت سے باہر آتے ہوئے اخلاقی طور پر جرات مندانہ موقف اپنانا ہوگا۔کلمہ طیبہ اور نبئی کریم سے نسبت سے رسول اللہ کی حرمت پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ ہولو کاسٹ کی طرح پر قانون سازی کروانا ہوگی۔یو این او میں اپنا کردار ادا کرنا پڑئے گا۔ یہ ہمارا اخلاقی، ایمانی اور مذہبی فریضہ اور تقاضئہ ایمان بھی ہے۔
٭٭٭