سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! ہمیشہ پڑھا اور بزرگوں سے س±نا کہ جس کے جنازے میں چالیس افراد شریک ہوں تو وہ بہت نیک ہوتا ہی یا ہوتی ہے خادم حسین رضوی کے جنازہ میں کم سے کم بھی تین سے چار لاکھ یا اس سے زیادہ بھی افراد شریک ہوئے ۔رب العلمین اور رحمت العالمین ہی ان کے درجات کی بلندی کا ترازو اپنے پاس رکھتے ہیں ہم بشر کے نزدیک تو فرشتے بغیر حساب کتاب کے ان کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ اللہ پاک مرحوم کے مزید درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے اہلَ خانہ اور لاکھوں مدعاو¿ں کو صبرِ جمیل دے آمین۔
قارئین وطن! رضوی صاحب مرحوم، کیسا عجیب لگتا ہے کہ ایک روز پہلے زور شور والا دوسرے روز مرحوم کہ جنازے میں شریک لاکھوں افراد کی شرکت کے حوالے سے ایک ٹی وی اینکر جن کی صورت حسرت موہانی سے ملتی جلتی ہے مختلف بڑے لوگوں کے جنازے پر لب کشائی کر رہے تھے کہ انہوں نے گورنر پنجاب سلیمان تاثیرکے قاتل قادری کے جنازے کا ذکر کیا کہ وہ بہت بڑا تھا پھر جلسے اور جلوسوں کا موازنہ خادم حسین رضوی مرحوم کے جنازے سے کیا۔ پھر بتانے لگے کہ جنرل ضیاالحق کا جنازہ بہت بڑا تھا یقیناً جنرل کا جنازہ بڑا تھا کہ اقتدار کی ساری ڈوریاں ان کے بیج میٹوں اور ان کے لے پالک نواز شریف کے ہاتھ میں تھیں۔ میری چھوٹی آنکھوں نے بڑے بڑے جنازے اور جلسے اور جلوس دیکھے لیکن اس وقت میڈیا کا اتنا زور شور نہیں ہوا کرتا تھا لاہور میں خواجہ رفیق کا بہت بڑا جنازہ تھا اور اگر جلسہ کی بات کرنی ہے تو1940 منٹو پارک لاہور ریزولیشن جس کی صدارت بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے کی لاہور کی آبادی اس وقت چالیس ہزار تھی اور اس جلسے کی تعداد ریکارڈ کے مطابق چالیس ہزار تھی کہ برصغیر کے قریہ قریہ سے لوگ قائد کو سننے آئے تھے پھر یہی حال ان کے سفرِ آخرت کا تھا کہ پورا کراچی امڈ آیا تھا لیکن اس وقت ٹی وی اور سوشل میڈیا نہیں تھا اور اگر ہمارے دوست میاں فرخ حفیظ عرف میاں بل گیٹ اور میاں منسور ربانی کے نانا جرنل حضور ضیالحق ذالفقار علی بھٹو مرحوم کے جنازے کو رات کے اندھیرے میں نہ لپیٹتے تو میرا خیال ہے کہ برصغیر کا سب سے بڑا جنازہ ہوتا۔ یہ میرا ربِ باری ہی جانتا ہے ان لوگوں میں ولی کون ہے درویش کون ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ ان ولیوں اور درویشوں میں میرے قائد میرے لیڈر حضرت محمد علی جناح ان ولیوں اور درویشوں کے سردار تھے جن کے ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا تھاما اور اللہ اور رسول کی رحمتوں سے پاکستان معرزِ وجود میں آیا ۔قارئین وطن ! آج دو اور اموات ہوئیں ایک مشہور سیاست دان انور عزیز صاحب دانیال عزیز کے والد سے میری بڑی خواہش تھی کہ شرف ملاقات ہوتی ہمارے بہت ہی پیارے دوست سلیمان کھوکھر صاحب ان کی مجلسی محفلوں کا بڑا ذکر کرتے تھے۔ دو تین مرتبہ پروگرام بنا لیکن میری قسمت میں عزیز صاحب سے ملاقات نہیں لکھی تھی اور میں محروم رہا ۔ان کی شوق و ترار سیاسی اور سماجی محفلوں کا ، دوسری اموات نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ کا صبح سے ہمارے ٹی وی بیگم شمیم صاحبہ کی خوبیوں کے ذکر گنگناتے رہے ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں ایک چور لٹیرے خائین نواز شریف کی والدہ کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں ایک طرف اشتہاری اور مفرور کی والدہ کی تعزئیت جرنل اور وزیر اعظم کر رہے ہیں اس کو منافقت کہتے ہیں جبکہ کسی غریب کی ماں مر جائے یہ لوگ اس کی برائیوں کی تسبیح گھماتے رہتے ہیں ۔ کاش جتنے لوگ خادم حسین رضوی کا جنازہ اٹھانے کےلئے جمع ہوئے ان میں سے نصف بھی ان نوازیوں زرداریوں کا جنازہ نکالتے جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت کا جنازہ نکالا۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے کہ ہم جوبیس کروڑ عوام کا خون نچوڑنے والوں کا بھی جنازہ نکالیں۔ باقی میرے اللہ کا اور ان مرنے والوں کے معاملات اس کے ہاتھ میں ہے ۔اللہ ان سب مرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرمائے ۔آمین
٭٭٭