الٹی گنگا، آئی پی پیز سے 1 ہزار ارب لینے کے بجائے 450 ارب دینے کا معاہدہ

0
82

اسلام آباد:

حکومت نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے آئی پی پیز سے وصولی کی بجائے انہیں 450 ارب روپے کی ادائیگی کی پیش کش کردی۔

قومی مفاہمت کا آرڈیننس یا این آر او متنازع قانون تھا جو اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے 2007ء میں درجنوں سیاست دانوں کے خلاف مقدمات چھوڑنے کے لئے متعارف کرایاگیا۔ آج کل یہ لفظ پھر بڑا عام فہم ہے۔

وزیر اعظم نے کئی بار کہا ہے کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کو این آر او نہیں دیں گے جن سے صف آرا ان کی حکومت کو سنگین سیاسی چیلینج کا سامنا ہے۔دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت انڈی پینڈینٹ پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو این آر او دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ مبصرین کے مطابق ایسالگتاہے کہ ان پاور پروڈیوسروں کو موصولہ اضافی ادائیگیوں کو نظرانداز کیاجارہاہے۔

اطلاعات کے مطابق مفاہمت کی یادداشت میں مبینہ طور پر آئی پی پیز کے حق میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ بجلی کے شعبے سے متعلق انکوائری رپورٹ میں ان سے ایک ہزار ارب روپے کی اضافی ادائیگیاں وصول کرنے کی سفارش کی تاہم حکومت نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے ان سے وصولی کی بجائے ایم اویو پردستخط کئے، جس کے تحت 47 آئی پی پیز کو 450 ارب روپے کی ادائیگی کی پیش کش کی گئی ہے۔

ماہرین اور حکام کے مطابق یہ انھیں این آر او دینے کے مترادف ہے۔ تاہم اہم حکومتی عہدیدار وں نے،جو خود بھی آئی پی پیز کے مالک ہیں ،بجلی کے نرخوں میں کمی کا ڈھول پیٹنا شروع کردیاہے۔ مجوزہ نیا معاہدہ آئی پی پیز کی دھوکہ دہی کی نہ مکمل نشاندہی کرتاہے بلکہ اس کے ذریعہ حاصل غیر قانونی فوائد کی بازیابی پر گرفت نہیں کرتا۔

حکومت آئی پی پیز کے پرانے واجبات کی مد میں ادائیگی کے لئے 450 ارب روپے کے فنڈز کابندوبست کررہی ہے جبکہ 1994 ء کے پاور پالیسی پلانٹس سے متعلق 100 ارب روپے سے زائد ادائیگیوں کی وصولی ، ایندھن کے لئے فیول پرائس انڈیکسیکشن کی اضافی ادائیگیوں سے متعلق 40 ارب روپے ،محمد علی کی پاور سیکٹر رپورٹ میں 50 ارب روپے کے اضافی منافع کی نشاندہی ، آئی پی پیز وغیرہ کے ذریعہ انوینٹری کے خلاف وصولی وغیرہ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی والے نکات مفاہمت نامے سے غائب ہیں جبکہ کچھ شقیں آئی پی پیز کے حق میں تبدیل کی جارہی ہیں۔  ٹیکس طے شدہ قیمت کے حصے کے طور پر فرض کیا گیا تھا تاہم کچھ معاملات میں آئی پی پیز کے ذریعہ محصول پر قطع ایڈجسٹمنٹ دیے بغیر انکم ٹیکس نہیں کاٹا گیا تھا۔

پاور خریداری معاہدے (پی پی اے) کی شیڈول 6 میں کہا گیا ہے کہ کمپنی، ٹھیکیداروں کو ادائیگیوں پر 4 فیصد ٹیکس حکومت کو اداکرنے کی ذمہ دارہوگی چونکہ ایڈجسٹمنٹ بروقت نہیں کی گئی لہذا ٹیکس کی رقم 40 سے 50 ملین ڈالر کی حد میں ہوگی۔

ابتدائی نرخوں کی گنتی فرنس آئل (ایف او) یا دیگر ایندھن کی قیمت کی بنیاد پر ہوتی ہے اور پھر قیمتوں کو انڈیکس کے ذریعہ ایف او کی اصل قیمت میں ٹیرف ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ 1994ء کی پاورپالیسی کی بنیادی قیمت 2843روپے ٹن اور 2002ء کی پاورپالیسی کے تحت 22ہزار843روپے ٹن تھی۔

حکام کا کہنا ہے کہ بے ضابطگیوں کی نشاندہی اور آئی پی پیز کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے فرانزک آڈٹ ضروری ہے تاہم آئی پی پیز، پی پی ایز اور بین الاقوامی عدالت برائے ثالثی کی ڈھال دینے کی کوشش کریں گے ، شناخت شدہ آئی پی پیز کو مجرمانہ کارروائی اور پی پی اے کے خاتمے سے بچنے کے لئے ان کی معاہدہ کی شرائط میں بہتری لانے کے لئے کہا جاسکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here