حیدر علی
ایشیائی ممالک جن میں بھارت اور پاکستان پیش پیش ہیںجعلی ڈگریاں دکھاکر ملازمت حاصل کرنا یا جعلی ڈگریوں کو دکھاکر کر جعلی ڈگریاں حاصل کرنا ، مطلب یہ کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا ایک عام سی بات ہے ۔ پاکستان کی یونیورسیٹیوں کے پروفیسران بارہا اِس امر کا انکشاف کر چکے ہیں کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کیلئے طلبا عموما”آن لائن جاکر کسی کے مقالے کو چوری کر کے اپنے نام سے پیش کر دیتے ہیں ۔ ایسے طلبا پی ایچ ڈی کیا میٹرک کی ڈگری لینے کے بھی اہل نہیں، اور تحقیقات کی جائے تو یہ پتا چل جائیگا کہ اُنہوں نے میٹرک سے لے کر ماسٹر کی ڈگری تک لینے میں چوری اور سرقہ بازی کا سہارا لیا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ یونیورسٹی کے حکام کو ایسے طلبا کے بارے میں علم بھی ہوتا ہے ، لیکن وہ اُن کے سماجی رتبے اور اعلی عہدے کو پیش نظر رکھتے ہوے اپنی زبان بند رکھنے پر مجبور ہیں، اور بالآخر وہ اُنہی چوروں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی عطا کر دیتے ہیں ۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ اُن کے پی ایچ ڈی کی ڈگری کا مضمون بھی” چوری سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا طریقہ کار “ ہوتا ۔ بہرکیف اب بات ملازمت یا تعلیمی اسناد سے بڑھ کر کھیل اور ہائیکنگ کے شعبہ تک پہنچ گئی ہے ۔ نیپال کی وزارت سیاحت نے اعلان کیا ہے کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیماں نریندر سنگھ یادا اور سیما رانی گوسوامی نے جعلی تصویروں کا سہارا لے کر یہ دعوی کیا تھا کہ وہ 2016 ءمیں کوہ ہمالہ کی چوٹی کو سر کیا تھا، جبکہ اُن کا دعوی سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی تھا ۔ وزارت سیاحت کا کہنا ہے کہ اگر اُن کی تصویروں کا بغور جائزہ لیاجائے تو اُن کی ریاکاری کا پردہ فوراًچاک ہوجاتا ہے ۔ مثلاتصویر میں جو آکسیجن ماسک نظر آرہا ہے اُس کا کنکشن آکسیجن ٹینک سے جُڑا ہوا نہیں ہے ۔ مزید برآں اُن کے سن گلاس میں کوئی سورج یا برفانی پہاڑ کا عکس نظر نہیں آرہا ہے ۔ حتی کہ اُن کے گائیڈ ( شیر پا) نے اُنہیں تنبیہہ دی تھی کہ اُن کے آکسیجن کی مقدار نا پید ہوچکی ہے، اور وہ لوگ طبعی طور پر ہمالہ کی چوٹی پر جانے کے اہل نہیں ہیں اور بالآخر اُنہیں ریسکیو کیا گیا تھا ۔ تفتیش کے دوران ایک مقامی شیر پا جو ریسکیو آپریشن میں شامل تھا بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں کوہ پیماں یادا اور گوسوامی آکسیجن کے سپلائی سے محروم ہوگئے تھے، اور اُن کی حالت غیر ہوگئی تھی ۔ نیپالی حکام نے مزید کہا کہ اُن کے تحقیقات کے مطابق دونوں کوہ پیماں یادا اور گوسوامی کوہ ہمالہ کی 27 ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچے تھے، جو چوٹی سے دو ہزار فٹ کمتر ہے ۔ تاہم وہ مقام بھی ڈیتھ زون کہلاتا ہے، اور وہاں ہوا کے عنصر اتنے زیادہ باریک ہوتے ہیں کہ انسان کا جسم و دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔ نیپالی حکومت کیلئے ہمالہ کی چوٹی کے سر کرنےوالے جھوٹے دعویداروں سے نپٹنا انتہائی دشوار کن بن گیا ہے، جو بذات خود چوٹی سر کرنے کے مترادف ہے ۔ 2016 ءدو بھارتی پولیس آفیسرز جو میاں اور بیوی پر مشتمل تھے کو اپنی ملازمتوں سے اُس وقت ہاتھ دھونا پڑ گیا جب اِس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ اُن کے ہمالہ کی چوٹی سر کرنے کا دعوی سراسر جھوٹ پر مبنی تھا ۔ پولیس افسران نے اپنی کامیابی پر بیان دیتے ہوے کہا تھا کہ اُنہوں نے اپنے اُس خواب کی تعبیر کی تھی جو وہ ایک طویل عرصہ سے دیکھ رہے تھے ۔ تاہم نیپالی حکام نے اُنکے دعوے کو مسترد کرتے ہوے کہا کہ وہ محض فوٹو گرافی کی ایک شاطرانہ چال تھی، ورنہ حقیقت میں وہ جوڑا کبھی بھی ہمالہ کی چوٹی کے قریب نہیں پہنچا تھا ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اِن شہادتوں کے باوجود بھی نیپال کا محکمہ سیاحت نے یادا اور گوسوامی کو کوہ پیما سر کرنے کے سرٹیفکٹ سے نواز دیا تھا ۔ تاہم نیپالی حکومت بعد ازاں دنیا بھر کے کوہ پیما¶ں کے احتجاج سے یادا اور گوسوامی کے دعوے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی قائم کرنے پر مجبور ہوگئی تھی ۔ کمیٹی کے اراکین نے یادا اور گوسوامی کی ٹیم کے سربراہ کو تحقیقات کیلئے طلب کیا تھا جو بعد ازاں ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ اُنہوں نے کمیٹی کے اراکین کو واضح الفاظ میں یہ بتادیا تھا کہ مذکورہ بھارتی کوہ پیماں ہمالہ کی چوٹی کو قطعی سر نہیں کیا تھا ۔ کوہ ہمالہ کی چوٹی کو سر کرنے والوں کو بھارت میں قومی ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے ۔ اگر وہ سرکاری ملازم ہوتے ہیں تو اُنہیں فوری طور پر اُن کی ملازمت میں ترقی دی جاتی ہے، بلکہ بعض کو یہ بھی رعایت دی جاتی ہے کہ وہ کچھ کام نہ کیا کریں ، صرف دفتر آن کر اپنی شکل دکھا دیا کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ اِن دنوں کوہ ہمالہ کو سر کرنے کیلئے بھارتی کوہ پیما¶ں کی لائن لگ گئی ہے اور اِس جم غفیر میں فراڈیہ افراد کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، جو صرف ایک ہزار فٹ کی ہائیکنگ کے بعد یہ دعوی کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہمالہ کو سر کرنے والوں کی سر فہرست میں ہیں ۔
بھارتی حکومت نے بھی یادا اور گوسوامی کو بھارت کے کوہ پیمائی کے شعبہ میں سب سے اعلی ترین ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن شیر پاز جنہوں نے یہ دیکھا تھا کہ یادا اور گوسوامی کوہ ہمالہ کی چوٹی کو سر کئے بغیر کیمپ واپس آگئے تھے، لوگوں کو آن لائن اُن کی لغو بیانی سے مطلع کرنا شروع کردیا ۔ بھارتی حکومت مجبور ہو کر ایوارڈ دینے کے فیصلے کو واپس لے لیاہے ۔ کوہ پیما¶ں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ نیپالی حکومت ایک ویب پورٹل قائم کرے جس میں تمام ہمالہ کی چوٹی کو سر کرنےوالے دعویداروں کی تصویریں آویزاں کی جائیں اور ہر تصویر کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ کس نے واقعی میں ہمالہ کی چوٹی کو سر کیا تھا، اور کون مخص جھوٹ، دغابازاور لغو بیانی کا مرتکب ہورہا ہے ۔