شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سینیٹ میں بھی عددی اکثریت حاصل کرے تاکہ قوانین کی منظوری کے لئے اپوزیشن کی طرف نہ دیکھنا پڑے مگر ہمارے ہاں سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کی جو روایت چلی آرہی ہے وہ خاصی شرم ناک ہے۔ پیسوں کے بل پر اپنے ووٹ بیچے جاتے ہیں۔ اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ارکان کی بولی لگتی ہے اور موجودہ طریقہ کار کے مطابق ارکان اسمبلی ایک ووٹ کے عوض کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ وزیر ثقافت پنجاب خیال احمد کاسترو نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی اوپن ووٹ کی مخالفت منافقت کی نشانی ہے۔حکومت چاہتی ہے کہ اس مرتبہ سینیٹ کے الیکشن اوپن ہوں یعنی شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹ کے ارکان کا انتخاب کیا جائے جبکہ اپوزیشن اس کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ اوپن ووٹ کی صورت میں انہیں اپنی شکست نظر آرہی ہے۔ حال ہی میں سینیٹ کے گزشتہ الیکشن کے دوران ہونے والی خرید و فروخت کی وائرل ویڈیو سے واضح ہوگیا کہ سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ ایک حقیقت ہے جس سے چھٹکارے کے لئے شو آف ہینڈ سسٹم لانا ضروری ہے۔ میاں خیال احمد کاستروپنجاب کی تہذیب اور ادب سے بہرہ مند انسان ہیں۔ وہ وسائل اور مسائل کو سمجھتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ کسی بھی قوم کا کلچر اسے نہ صرف دنیا میں روشناس کراتا ہے بلکہ کلچر کی ترقی قوم کی ترقی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اپوزیشن مذکورہ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کر کے من مانے نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے،اس طرح ہماری جمہوری روایات کا غلط تاثر دنیا میں جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ادوار میں کرپشن کی سیاست کو فروغ دیا۔ اب اپوزیشن اتحاد جو پی ڈی ایم کے نام سے حکومت کے خلاف مہم چلا رہا ہے انہی کے متعلق وزیر ثقافت پنجاب نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کی فلم بری طرح ناکام ہونے پر اپوزیشن حواس باختہ ہے۔ چھانگا مانگا مارکہ سیاست کی موجد مسلم لیگ ن نے ہمیشہ سیاست میں غلط روایات کو پروان چڑھایا۔ نوٹوں کے انبار سے ووٹوں کی خریدوفرخت کا دھندہ دراصل ضمیر کا دھندہ ہے۔عوامی اعتماد کا سودا کرنے والے سیاست دان عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ہمیشہ ہی لوٹوں کی سیاست کی۔ من مانے نتائج کے حصول کیلئے ارکان کی خرید و فروخت کو عام کیا۔ حالانکہ ان دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں وعدہ کیا تھا کہ ارکان کی خرید وفروخت نہ کریں گے مگر ہارس ٹریڈنگ کو بھی انہی جماعتوں نے فروغ دیا۔خفیہ رائے شماری میں خدشہ ہے کہ گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی اراکین اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کچھ لو ،کچھ دو کی بنیا د پر دوسرے امیدواروں کو ووٹ نہ دے دیں۔یوں ہارس ٹریڈنگ کا کلچر ایک بار پر رواں ہو جائے جو کہ وزیر اعظم عمران خان ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن رہنماﺅں نے حکومت کی طرف سے قبل ازوقت انتخابات یا شو آف ہینڈز یا کھلی رائے شماری کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور اس حوالے سے قانونی لڑائی لڑنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کر سکتی ہے، نیا قانون نہیں بنا سکتی۔ ہم سپریم کورٹ سے بھی امید کرتے ہیں کہ وہ وسیع تر قومی مفاد میں اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اہم اور بروقت اقدامات کرے۔ جناب خیال احمد کاسترو سیاسی میدان میں نئے وارد نہیںہوئے بلکہ ان کے خاندان کا ملکی سیاست میں دخل رہا ہے۔ ان کے والد نے قومی الیکشن میں مادر ملت کا ساتھ دیا تھا اور اس حوالے سے ان کی بڑی خدمات ہیں۔ یہ خاندان مقامی طورپر فیصل آبادکی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتا چلا آ رہاہے۔ اب بھی ہمیں امید ہے کہ خیال احمد کاسترو اپنے خاندان کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف ثقافت کی ترقی کے لیے کوشش کرتے رہیں گے بلکہ وہ فیصل آباد کی صنعت کو مستحکم کرنے کے لیے بھی معاون بنیں گے۔ خیال احمد کاسترو کو دیکھ کے اور ان کی باتیں سن کے ایسا لگتا ہے کہ جناب اپنے کلچر کی تجدید کے لیے جامع پلان رکھتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ میاں خیال احمد کاسترو پنجاب کی ثقافت کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور پنجاب کے وہ میلے جنہیں دنیا دیکھنا چاہتی ہے پھر سے آباد ہوں گے۔پنجاب میں تاریخی قلعے ہیں ،دریا ہیں ،ریگستانی سلسلے ہیں۔خوبصورت باغات ہیں۔پہاڑی سلسلے ہیں ان کے ساتھ ساتھ پنجاب اپنے صحت بخش اور مزیدار کھانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پنجاب ثقافت اور سیاحت کے فروغ کے پس پردہ راجہ جہانگیر کی کوششوں اور محبتوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔راجہ جہانگیر انور نہ صرف ایک نہایت زیرک اور فرض شناس بلکہ خوش اخلاق‘ خوش لباس‘ فرض شناس اور دیانتدار افسر ہیں۔ سیکرٹری کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اطلاعات اور ثقافت کے شعبوں کی کارکردگی میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے۔ ان کی زیر نگرانی سرکاری منصوبوں کی تشہیر بہتر انداز میں ہونے لگی ہے۔ ان کی خصوصی توجہ کی وجہ سے علمی ادبی اور ثقافتی اداروں کی گرانٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ ان اداروں میں بزم اقبال، مجلس ترقی ادب شامل ہیں۔
٭٭٭