ہر طرف سے ہمیں مبارکبادیں مل رہی ہیں،رمضان کے مقدس مہینے کی،بلاشبہ یہ مقدس مہینہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن پاک کا نزول ہوا تھااور اس مقدس کتاب کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے پڑھا ہے ،یہ کتاب ایک حکیم ہے کہ اس میں مسلمانوں کی پریشانی کا حل ہے ،اس میں شعور کی باتیں ہیں ،اس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ پچھلی قوموں پر عذاب نازل ہوئے اور یہ بھی کہ کس طرح پیغمبروں کو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان سے نجات ملی حیران کن باتیں ہیںجن پر یقین کرنا لازمی ہے اگر آپ کا اور ہمارا ایمان اللہ اور اس کے رسول پر ہے۔
اور ہم اپنے ہر کام اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کو شامل کرکے بسم اللہ سے شروع کرتے ہیں اسکے بعد احادیث ہیں۔اور بتایا گیا ہے کہ“اے لوگو اگر تم قرآن نہ سمجھو سکو اور عمل ناممکن ہو تو احادیث پر عمل کرو “ہمارا یقین ہے بلکہ یقین کامل ہے کہ زندگی بڑی سکون سے گزرے گی۔رمضان کے اس مقدس مہینہ میں اس کا احترام شروع ہو جاتا ہے۔
مساجد بھر جاتی ہیں اور تلاوت قرآن پاک تراویح کی شکل میں مسلمانوں کو ذہین نشین کرایا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اس ماہ میں اپنے کردار کو درست کریں۔سچ بولیں دستر خوان اپنی حیثیت کے مطابق اپنے عزیزاقارب اور ناداروں کے لئے کھول دیں کہ یہ برکتوں کا مہینہ ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس بابرکت مہینے میں تاخیر حضرات ضرورت کی چیزوں کی جو اس ماہ میں زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔قیمتیں کیوں بڑھا دیتے ہیں ہم امریکہ میں50سال رہنے کے بعد جائزہ لیں تو معلوم ہوگا۔پاکستان سے آکر یہاں بسے لوگ جو گوشت، کرانہ، اور ریستوران کے بزنس میں ہیں وہ ایک پاکستان کو اُٹھا کر لے آئے ہیں۔اور دوکانوں کی شکل میں ہر جگہ پاکستان میں اس ماہ میں ہونے والی منافع خوری کو فروغ دے رہے ہیں۔پاکستان زندہ بادکیا کبھی ان لوگوں نے سوچا کہ جس ملک نے انہیں سب کچھ فراہم کیا ہے وہ یہاں کے بنائے ہوئے قانون کا ناجائز فائدہ کیوں اٹھاتے ہیں،ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ رمضان کے شروع ہونے سے پہلے گوشت بالخصوص بکرے کے گوشت کی قیمتیں کیوں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔مانا کہ ہول سیل کا کاروبار کرنے والا یہودی ہے اور اس نے ایک بکرے پر20ڈالر بڑھائے ہیںتو ہلال گوشت کی دوکانوں کا قصاب بجائے بیس کے چالیس ڈالر کیوں مہنگا بیچ رہا ہے۔اسی طرح گائے کا گوشت بنگلہ دیشی دوکانوں میں5ڈالر پونڈ سے دوسرے پاکستانی اور افغانی دوکانوں میں چھ ڈالر سے زیادہ کیوں بک رہا ہے۔یہ کہتے ہوئے ہمیں کوئی جھجک نہیں کہ گوشت کی قیمتیں بنگلہ دیشی دوکانوں میں کم ہیں مطلب پاکستانی اور افغانی لوٹ مار میں مصروف ہیں ،خاص کر بکری کا گوشت ملاخطہ ہو پچھلے ہفتہ ہم شکاگو میں تھے بازار نکلے مشرق وسطیٰ کے عرب کی دوکان پر گئے اور قیمتیں دیکھ کر ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ،بکرے کی جانپیں ٹرے میں سجی ہوئی تھیں اور15ڈالر پونڈ کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔بکری کے پائے8ڈالر پاﺅنڈ، گائے کا بغیر ہڈی کا گوشت ساڑھے چھ ڈالر پونڈ، چکن تین ڈالر ہمیں نہیں معلوم کہ نیویارک میں مسلمانوں نے گوشت کے دام کتنے بڑھائے ہیں۔سلام علیکم، بسم اللہ، ماشاءاللہ، الحمدللہ، کہنے والی قوم منافع خوری میں کیوں سب سے آگے ہے اور ہلال گوشت(زبیحہ ہے یا نہیں اللہ جانے)بیچنے کے بہانے کیوں ایسا کر رہی ہے پھر یہ ہی لوگ ہیں جنہوں نے ضرورت سے زیادہ اسلام کو اوڑھ رکھا ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے دوسرے پھیلتے ہوئے بزنس کی بات بھی کرتے چلیں وہ ہے ریستورانت کا کاروبار پچھلے ڈیڑھ سال سے امریکہ میں بڑے بڑے بزنس بوریہ بسترہ باندھ گئے لیکن ہلال فوڈ کا بزنس ترقی کر گیا کہ ہمارا باہر کھانے چلن بڑھ گیادو وجوہات ہیں یا تو خواتین آرام کرنا چاہتی ہیں۔کھانا پکانے کی بجائے اور ہمارے نوجوان فامڈ فوڈ کے عادی ہوچکے ہیں۔اب اگر آپ مینو پر نظر ڈالیں تو سوچنا پڑیگا یہ قیمتیں کیوں بڑھائی ہیں۔آٹا، دودھ، شکرسب پرانے بھاﺅ میں ہیں۔مگر مٹھائی اور نان مہنگے بیچ رہے ہیں نیویارک میں بہت سے ریستوران ڈیڑھ سے دو ڈالر کا نان بیچ رہے ہیں۔مینو دیکھیں اور اسکے ساتھ دیدہ زیب تصاویر کھانوں کی ڈشوں کی تو قیمتیں صاف بتاتی ہیں کہ منافع خوری ہے۔شکاگو کے ریستوران شاہی نہاری جانے کا اتفاق ہوا کئی بار جاچکے ہیں لیکن یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ سبزی اور دال کی ڈش14ڈالر کی کیوں ہے اور نہ ہی ہم نے پوچھا۔نیویارک میں پچھلے ہفتہ ہکس ول میں جانے کا اتفاق ہوا بڑا نام سنا تھا۔کباب حبی کا۔ریستوران کھچا کھچ بھرا تھا کئی ڈشوں کا آرڈر دیا۔یہ ریستوران(OVERPRICED)کے نام سے مشہور ہے ہمیں شکایت نہیں زیادہ قیمت کی لیکن مرچوں سے بھرے گولہ کباب جو پلیٹ میں گر کر قیمہ بن چکے تھے۔چکن چیز سیخ کباب جن میں کوئی مزہ نہ تھا۔نان قیمت زیادہ لیکن اندر آٹا جم کر حلوہ بن گیا تھا شکر ڈالنے کی ضرورت تھی۔بس ایک ڈش کڑاھی چکن اس قابل تھا کہ کھایا جائے۔ہمیں کسی کے چلتے ہوئے بزنس کو نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں ،آپ اس ریسٹورنٹ کے ریویو پڑھ لیں۔اگر چاول اُبال کر تھوڑا مصالحہ اور ابلے چکن کی بوٹی ڈال کر بریانی کا نام دیا جائے جس میں بریانی یا پلاﺅ کی خوشبو نہ ہو تو ہم یہ ہی کہیں گے۔چاول اور چکن کا سالن، گوشت کے علاوہ کھجوریں ہیں جس پر منافع خوری جاری ہے۔ادھر افغانی ریسٹورانٹ سب نہیں کچھ نے قیمتیں بڑھا دی ہیںاور دو سیخوں سے ڈیڑھ سیخ کردی ہے۔جبکہCOVIDکے پابندی والے مہینوں میں ان ریستوران کا ٹیک آﺅٹ سب سے زیادہ ہے کہ وہ مزید منافع خوری کر رہا ہے۔اسی طرح فوڈکاوٹ پر بیچنے والے ہلال فوڈ کے مالکان نے بھی جنہیں کوئی کرایہ نہیں دینا پڑتا۔اپنے ریٹ بڑھا دیئے ہیں۔ایک افغانی یا کشمیری نے جیکسن ہائٹس میں ڈیرہ ریستوران کے سامنے کشمیری چائے کا فوڈ کارٹ لگایا تھا اور وہ چھوٹا سا کاغذی کپ2ڈالر کا بیچتا تھا۔چائے ضرور کشمیری تھی لیکن اس میں پستہ اور بادام چٹکی بھر بھی نہ تھے۔شاید اسے اپنے ملک جانا تھا۔وہ چلا گیا لیکن کشمیری چائے اچھی یا بدمزہ ہر ریستوران میں دو ڈالر کی ہی بک رہی ہے۔ایک بات لکھنا بھول گئے ہمارے پاکستانی اور افغانی ریسٹورنت والے ٹماٹر مہنگے(ڈالر پونڈ)ہونے کی وجہ سے سلاد میں عرصہ سے ٹماٹر اور کھیرے کی جگہ بند گوبھی استعمال کر رہے ہیں۔یہ سارے ریستوران اچھا بزنس کر رہے ہیں لیکن ان کے مالکان کی کوشش ہوتی ہے کہ گاہک کو اسکے پیسوں کے عیوض کچھ زیادہ نہ چلا جائے۔شکاگو اور ہیوسٹن میں پاکستانی ریستورانٹ نے اپنا مقام بنا لیا ہے لیکن نیویارک میں ایسا کوئی نام نہیں جو ہم بتائیں۔
٭٭٭