قاضیوں کے سامنے قاضی ملزم!!!

0
399
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ قاضیوں کے سامنے قاضی ملزم بن کر پیش ہو رہے ہیں جس میں سپریم کورٹ میں اپنے نظرثانی کیس میں ملک کے نامور قابل ترین جج قاضی فائز عیسٰی ملزم بن کر وکالت کر رہے ہیں۔جس پر صدارتی ریفرنس دائر ہو رہے کہ ان کے بچوں کی جائیداد لندن میں ہے جس کا جسٹس قاضی کمیٹی کا دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔یہ جانتے ہوئے جسٹس قاضی کے بچے پانچ اور پیشہ وار وکیل اور پروفیشنل ہیں۔دوم بالغ بچے جسٹس قاضی پر انحصار نہیں کرتے ہیں سوم بچوں کی والدہ جو سرینا قاضی بذات خود امریکن سکولوں میں اُستانی رہی ہے جن کو ڈالر میں تنخواہ ملتی تھی جن کے والد محترم کھوسہ مرحوم ایک بہت بڑے زمیندار تھے جو اپنی اولاد کے لیے بے تحاشہ دولت چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔اگرچہ سپریم کورٹ جسٹس قاضی کے خلاف من گھڑت اور مفروضوں پر مبنی صدارتی ریفرنس کو کالعدم کر دیا ہے۔مگر بعض ملازم ججوں نے ان کی بیگم کے خلاف ایف بی آر کی شکل میں تلوار لٹکا دی ہے تاکہ جسٹس قاضی اپنی بیگم کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی تکلیف میں مبتلا رہیں۔جس کا مظاہرہ جاری ہے کہ قاضی جسٹس قاضی کی بیوی بچوں کو سنے بغیر ایف بی آر پیچھے لگا دیا جس کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے جس کی وجہ سے جسٹس قاضی نے اپنے قاضیوں کے سامنے اپنی وکالت کرنا مناسب سمجھی کہ سپریم کورٹ کو میری سماعت عام کی جائے تاکہ ریفرنس کے بعد جس طرح میری کردار کشی کی گئی ہے میں اس کا جواب دے پاؤں، عدالتوں کے ججوں کی موجودہ حکمران ٹولہ کردار کشی پر تلا ہوا ہے۔اس کاجواب دینے سے پوری عدلیہ کا وقار بلند ہوگا لہٰذا حقائق کو کھلے عام سماعت میں جواب دینے سے ناصرف میری کردار کشی کا جواب دیا جائے گا بلکہ باقی ججوں کے خلاف گسٹا پوازم کا خاتمہ ہوگاجو ججوں کو دھمکیوں سے انصاف سے ہٹاتے اور مٹاتے نظر آتے ہیں تاہم سپریم کورٹ میں قاضیوں کے سامنے قاضی ملزم کی سماعت سے عدالت کا وقار بلند کیا جارہا ہے جس کو ماضی میں جسٹس منیر احمد جسٹس انوارلحق، جسٹس ارشاد حسین خان آمروں اور جابروں کے حوالے کردیا تھاجنہوں نے آئین پاکستان کے مدمقابل جنرلوں کے بنائے گئے قوانین ایل ایف او اور پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل چھ کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی سزا موت ہے جاملے وہ کوئی جنرل ہو یا جج جس نے بھی آئین توڑا معطل یا منسوخ کیا ہوا یا پھر اسکی معاونت کی ہو یا پھر آئین شکنی کو چائیز قرار دیا ہو اس کی سزا دینا لازم ہے بشرطیکہ پاکستان میں کوئی ایران، بنگلہ دیش اور ترکی جیسی تبدیلی رونما ہو پائے۔مزیدبرآں جسٹس قاضی عیسیٰ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے ساٹھ ستر مشہور وکیلوں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کرنے کی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا کہ اس سانحہ میں ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں جن کی شہ پر یہ حادثہ پیش آیا ہے میں بلوچستان کے ماہر قانون دان جان سے مار دیئے گئے جو صوبہ بلوچستان کا ورثہ تھے جنہوں نے بلوچستان کے عوام کو انصاف فراہم دلوانا تھا۔دوسرا ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی عدالت میں فیض کا فیض آبادی دھرنے کے خلاف فیصلہ دیا کہ اس دھرنے کو فوری ہٹایا جائے جس پر عملدرآمد نہ کرتے ہوئے دھرنا کو جاری وساری رکھنے کے لیے نہ صرف حکم عدولی کی گئی بلکہ شرکاء میں پیسے بانٹے گئے چنانچہ قاضی فائز عیٰسی کے اس فیصلے کے خلاف عسکری اور حکومتی اداروں نے نظرثانی کی اپیل دائر کی جس کی وجہ سے جسٹس قاضی کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کر دیا گیا۔جس کی سماعت آج تک جاری ہے چونکہ جسٹس قاضی2023میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے جارہے ہیں لہٰذا پاکستان کے مقتدر ادارے ان کے دشمن بن گئے ہیں جنہوں نے ایک حاضر ڈیوٹی جج کو بلا جواز مقدمات میں اُلجھا رکھا ہے تاکہ جسٹس قاضی اپنے عظیم عہدے سے ہٹ جائے اور ملک میں کنٹرولڈ عدلیہ کا دور جاری رہے جس پر وکلاء تحریک کے رہنما سپریم کورٹ بار کے سابقہ صدر علی احمد کرد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں جج صرف چار میں باقی ملازم ہیں جو سچ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ قاضی جو اپنے قاضی کا یہ حشر کرسکتے ہیں۔تو وہ عام عوام کو کیا انصاف دے پائیں گے۔بہرحال جسٹس قاضی پاکستان کی عدالتی نئی تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔جنہوں نے وقت کے فرعونوں کو چیلنج کر رکھا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں ہے جس دن پاکستان کی عدلیہ آزاد اور خودمختار ہو جائے گی جس کے سامنے ہر بڑا چھوٹا عہدیدار اور اہلکار یا کوئی بھی طرم خان پیش ہوگا۔جس طرح خلافت راشدہ کے وقت خلیفہ وقت اپنے قاضیوں کے سامنے جھٹکا کرتے تھے۔جسٹس قاضی نے عدالت عظمیٰ میں وہ سوالات اٹھائے ہیں جس کا ملازم جج جو اب نہیں دے رہے ہیں کہ اگر توہین عدالت میں وزیراعظم گیلانی کو عہدے سے ہٹا کر پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔نہال، دانیال اور طلال سیاستدان اور نمائندگان کو پانچ پانچ سال تک نااہل کیا جاسکتا ہے تو توہین عدالت کے مرتکبین وزیرقانون فروغ نسیم اور سابقہ اٹارنی جنرل منصور علی خان کو سزا کیوں نہ دی گئی ہے تاکہ انصاف بلاتفریق اور بلاامتیاز دیا جاتایا پھر عمران خان اور باقی وزیروں کو عدالت میں طلب کیوں نہیں کیا جنہوں نے ججوں کی کردار کشی کی، مہم جاری رکھی ہوئی ہے ہر وہ سوال جو صرف جسٹس قاضی جو ایک بہادر، نڈر اور دلیر جج کرسکتا ہے جس سے پاکستان کے ایوانوں میں ہل چل مچی ہوئی ہے جو آہستہ آہستہ عوامی شکنجوں میں پھنس رہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here