عالمی قوتوں کے سامنے عمران خان کا ایک اور دبنگ سٹائل منظر عام پر آیا ہے۔ تبدیل ہوتے ہوئے بین الاقوامی حالات اور مفادات کے دور میں ایک بین الاقوامی چینل نے عمران خان کا انٹرویو نشر کیا ۔ اس انٹرویو کی چیدہ چیدہ سوالات و جوابات قارئین کی پیش خدمت ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے پوچھا گیا کہ سرحد پار مغربی چین میں چینی حکومت نے تعلیمِ نو کے کیمپوں میں 10 لاکھ اویغور مسلمانوں کو قید کر رکھا ہے،’چینی حکومت نے مسلمانوں پر تشدد کیا ہے، انھیں زبردستی سٹیرلائز (بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم) کیا ہے، انہوں نے سنکیانگ میں مساجد گِرائی ہیں، مسلمانوں کو روزہ رکھنے، نماز پڑھنے یا اپنے بچوں کو مسلم نام دینے پر سزائیں دی ہیں۔ آپ یورپ اور امریکہ میں اسلاموفوبیا پر اتنی بات کرتے ہیں لیکن مغربی چین میں مسلمانوں کی نسل کشی پر بالکل خاموش کیوں ہیں؟’ اس کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ‘چینی حکومت سے جو ہماری بات چیت ہوئی ہے اس میں پتا چلا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے، چین کے مطابق۔سوال کرنیوالے نے بتایا کہ چین پر ان الزامات کے بہت زیادہ اور ٹھوس شواہد موجود ہیں جس پر عمران خان نے کہا کہ ‘چینی حکومت کے ساتھ ہمارے جو بھی مسائل ہوتے ہیں، ہم ان کے بارے میں بند کمروں کے اندر بات کرتے ہیں۔ ہمارے مشکل وقتوں میں چین ہمارا بہترین دوست ثابت ہوا۔ جب ہماری معیشت مشکلات کا شکار تھی تو چین ہماری مدد کو آیا۔ ہم اس بات کا احترام کرتے ہیں کہ وہ کیسے ہیں اور آپسی مسائل پر بند کمروں کے اندر بات چیت کرتے ہیں۔اس سوال کے جواب میں عمران خان نے سوال کیا کہ چین کا مسلمانوں کے ساتھ نسلی امتیازمغربی دنیا کے لیے اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہے؟ کشمیر کے لوگوں کو نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟ ‘اویغوروں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے موازنے میں ایک لاکھ کشمیریوں کا قتل کیا گیا ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آٹھ لاکھ انڈین فوجی ہیں۔ یہ واقعی کشمیر کے لیے یہ بڑا قید خانہ ہے۔ یہاں 90 لاکھ کشمیریوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ منافقت ہے۔’ انٹرویور نے سوال پوچھا کہ ‘چین آپ کے لیے بڑا پارٹنر ثابت ہوا ہے لیکن کیا کسی سطح پر آپ کو بْرا نہیں لگتا کہ ان کے دئیے ہوئے پیسوں کی وجہ سے آپ کو خاموش رہنا پڑتا ہے۔؟’عمران خان نے اس کے جواب میں کہا کہ ‘میں دنیا پر نظر دوڑاؤں تو پتا چلتا ہے کہ فلسطین، لیبیا، صومالیہ، شام، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا میں ہر چیز پر بات کرنا شروع کر دوں؟ میں اس پر توجہ دوں گا کہ میرے ملک کی سرحدوں کے اندر کیا ہو رہا ہے۔’ اس پر انٹرویور نے کہا کہ ‘یہ بھی تو آپ کی سرحد پر ہی ہو رہا ہے۔’ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، یہاں ایک لاکھ لوگ مر رہے ہیں۔ مجھے اس کی زیادہ فکر ہے کیونکہ آدھا کشمیر پاکستان میں ہے۔’
انٹرویورنے کہا کہ یہ انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے جس کے جواب میں عمران خان کہتے ہیں کہ ‘مجھے اس پر یقین نہیں۔ چین سے ہماری بات چیت میں یہ بات سامنے نہیں آئی۔’
انٹرویور نے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کی مثال دی اور کہا کہ ظاہر ہے چینی آپ کو یہی بتائیں گے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر پوچھا کہ ‘کیا آپ کو سنکیانگ میں اویغوروں کی کوئی فکر نہیں؟’
عمران خان نے جواباً ایک بار پھر کہا کہ ‘چین سے ہماری بات چیت ہمیشہ بند دروازے کے پیچھے ہو گی۔’
اسی انٹرویو کے دوران افغانستان سے امریکی انخلا پر وزیر اعظم نے کہا کہ اگر طالبان افغانستان میں مکمل فتح کے لیے سرگرم ہوئے تو افغانستان کے بعد پاکستان کو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔ ‘امریکی انخلا سے قبل افغانستان کے اندر امن قائم کرنے کے لیے (قوتوں کے درمیان) مذاکرات ضروری ہیں۔’ عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘جو کوئی بھی افغان عوام کی نمائندگی کرے گا ہم اس سے بات چیت کریں گے۔’ خیال رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل کہا تھا کہ افغان طالبان کے مذاکرات کار ‘امن عمل میں سہولت کاری’ کے لیے پاکستان آتے ہیں اور پاکستان اْن کے ساتھ اسی مقصد کے لیے مل کر کام کر رہا ہے۔
عمران خان نے یہ تسلیم کیا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر اسلام آباد میں ایک غیر اعلان شدہ دورہ پر آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ان سے ملاقات نہیں کی بلکہ آئی ایس آئی کے سربراہ ان سے ملے تھے۔
انٹرویور نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان پر نظر رکھ سکے۔ اس سوال پر کہ آیا پاکستان اس کی اجازت دے گا، عمران خان نے کہا ‘ایبسلوٹلی ناٹ (بالکل نہیں)۔ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں کسی قسم کی سرگرمی۔۔۔ ہم بالکل اس کی اجازت نہیں دیں گے۔’
‘امریکی جنگ میں شریک ہو کر پاکستان نے 70 ہزار جانیں گنوائیں۔ ہم اپنی سرزمین سے مزید فوجی کارروائیاں برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم امن میں شراکت دار ہوں گے، لڑائی میں نہیں۔’
عمران خان سے پوچھا گیا کہ آیا انھوں نے اب تک امریکی صدر جو بائیڈن سے بات چیت کی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ ‘کیوں’ کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ‘جب بھی ان کے پاس وقت ہو وہ میرے سے بات کر سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے اس وقت ان کی ترجیحات اور ہیں۔’ عمران خان نے یہ امید ظاہر کی کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بڑھنے کے خدشات پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے بعد سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیار رکھنے کا مقصد انڈیا کے ساتھ کسی کشیدہ صورتحال کو روکنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘جس لمحے کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، مجھے لگتا ہے، دونوں ملکوں کو جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔