(گذشتہ سے پیوستہ) شیخ القراء بریر بن خضیر ہمدانی ، حضرت علی کے اصحاب میں شمار ہوتے تھے انہوں نے حضرت علی اور امام حسن کے فیصلوں کو جمع کر کے کتاب ترتیب دی تھی یہ بھی شہداء میںسے ہیں ابوالحتوف بن حارث اور ان کے بھائی فوج اشقیاء میں تھے استغاثہ حسینی پر لبیک کرتے ہوئے تائب ہو کر شہداء کربلا میں شامل ہوئے۔
امیہ بن سعد طائی آٹھویں محرم کو کوفہ سے فوج حسینی سے ملحق ہوئے اور جام شہادت نوش کیا زیارت رجبیہ میں بدر بن رقیط پر سلام کیاگیا ہے جو شہید کربلا ہیں بشر بن عمر حضرمی کے شہدائے کربلا میں ہونے کی دلیل زیارت ناحیہ میں سلام ہے یہ وہ خوش مقدر ہیں جنہوں نے امام حسین کے قلادئہ بیعت کے اٹھانے پر انہیں کربلا چھو ڑ جانے کا فرمایا تو انہوںنے عرض کیا مجھے جنگلی درندے نوچ کر کھا جائیں کہ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں امام زمانہ نے زیارت ناحیہ کے ذریعے ان کے ایثار کا شکریہ ادا کیا ہے یہ حضرموت کے تھے ان کے فرزندرے میں قید ہوگئے تھے انہوں نے کہا کہ بیٹے کو اللہ چھڑائے گا میں رسول ۖ کے بیٹے کو کیسے چھوڑوں بکر ابن حیی ثعلبی صحابی رسول ۖ تھے یہ بھی بہک کے عمرسعد کے لشکر میں آئے مگر تائب ہو کر جانثار حسین بن گئے۔
وقائع الحوادث میں ہے کہ حر کے بیٹے بکیر نے اپنے باپ کے ہمراہ لشکر حسینی کو جائن کیا پچیس لوگوں کو بکیر نے فی النار کیا ،اس کے بعد پھر دیگر 54 کوفی النار کیا۔ جابر بن حجاج کوفہ کے رہنے والے تھے کوفیوں کی بے وفائی کے وقت یہ روپوش ہوگئے بالآخر کربلا پہنچ کر لشکر حسینی میںشامل ہوئے اورمنصب شہادت پر فائز ہوئے ، جابر بن عروہ غفاری بوڑھے صحابی اور عبادت گزار تھے جنگ بدر وحنین کے مجاہدوں میں سے تھے ، انہوں نے ابرؤں کو بلند کرنے کے لئے آنکھوں کے اوپر رومال باندھا زیارت رجبیہ میں جبلہ بن عبداللہ پر بھی سلام کیا گیا ہے شجاعان کوفہ میں سے تھے ایک جبلہ بن علی شیبانی تھے جو جنگ صفین میں باپ اور نینوا میں بیٹے کے ساتھ تھے یہ بھی حملہ اولی میں شہید ہوئے حملہ اولی میں جنادہ ابن کعب بھی شہید ہوئے۔
تاریخ ابن عساکر نے جنادہ بن حارث انصاری سلمانی ازدی کو شہید کربلا لکھا ہے یہ عذیب الہاجانات نامی جگہ پر متصل فوج حسینی ہوئے تھے۔ انہوں نے حضرت مسلم کی بیعت کی تھی زیارت ناحیہ میں ان پر بھی سلام کیا گیا ہے زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں جندبٍ ابن حجیر پر بھی سلام درج ہے یہ بطن الدمہ نامی جگہ پر کاروان حسین سے منسلک ہوئے اور حملہ اولی کے شہید ہیں پہلے حملے کے شہدا میں جوین بن مالک تمیمی اور حارث بن امروء القیس کندی کے نام بھی ہیں جو عمرسعدکو چھوڑ کر امام عالی مقام کے لشکر سے ملحق ہو کر شہید ہوئے حارث بن نبہان امیر المؤمنین کے نوکروں میں سے تھے حباب بن حارث اور حباب بن عامر بھی پہلے حملے کے شہیدہیں۔ حبشہ بن قیس تہمی ہمدانی کا نام بھی شہداء میں درج ہے۔ابن زید سعدی ابن مسعود نہشلی کا خط بصرہ لے آئے اور پھر ہمرکاب سرکار سیدالشہدائ ہوگئے مؤذن امام تھے صرف حضرت علی اکبر نے صبح عاشور کی اذان کہی ورنہ سرکاری مؤذن حجاج تھے۔
18 یزیدیوں کو ہلاک کرنے کے بعد شہید ہوئے ثرید بن تبیط بصرہ سے اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ کو اپنے ہمراہ لائے تھے یہ تینوں شہید ہوئے طبری نے بروایت ابی مخنف لکھا ہے کہ یزید بن ثبیط ، عامر بن مسلم عبدی ، اور ادہم بن امیہ کے ہمراہ مکہ کے باہر سے ملحق کاروانِ حسینی ہوئے تھے۔
حبیب ا بن مظاہر اسدی نے 50 یزیدیوں کو قتل کیا اور شہید ہوئے ، ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں لکھا ہے کہ یزید بن معقل بن عوف بن عمر صحابہ کرام رسول ۖ میں سے تھے۔ ابصار العین میں لکھا ہے کہ یہ بزرگوار بہترین شاعر اور بہادر تھے یہ مکہ سے ملحق ہوئے۔یحیٰی بن ہانی بن عروہ اپنے باپ کی شہادت پر مخفی ہوگئے جب انہیں کربلا کی خبر ہوئی تو نصرت حسین کیلئے پہنچ کر شہید ہوئے ، ہفہاف بن مہند راسبی ازدی شجاع دلاور اور عدیم المثال تھے۔
رجال ما مقانی میں لکھا ہے کہ یہ بصرہ کے رہنے والے تھے بصرہ سے اس وقت کربلا پہنچے جب جنگ ختم ہوچکی تھی یہ واحد شہید ہیں جنہوں نے فاطمہ کے لال کی شہادت کے بعد انتقامی جنگ کربلا کی سرزمین پر لڑی اور شہید ہوئے یحییٰ بن کثیر اور یحییٰ بن سلیم مازنی بھی ان خوش نصیبوں میں ہیں اول الذکرنے شہادت سے قبل 50 یزیدیوں کو ہلاک کیا نعیم بن عجلان اور نعمان بن عمر راسبی بھی شہدائے کربلامیں سے ہیں نصر بن نیزرنجاشی کی اولاد میں سے تھے۔ بچپن میں صحابی رسولۖ ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا انہی کو حضرت علی نے صدقہ کے ایک کنویں کی تحریر وقف لکھ کردی تھی ‘ جسے عین نیزر کہتے ہیں یہ بھی شہید کربلا ہوئے انصار حسین میں موقع ابن ثمامہ اسدی بھی حر کی طرح تائب ہو کر آئے وہ زخموں سے چور ہوئے ایک سال بعد زارہ نامی بحرینی شہر میں ملک بدری کی سزا میں شہید ہوئے اس لئے کہ ابن زیاد نے انہیں تبعید کروادیاتھا۔ مقسط بن زہیر اور منیر بن عمر واحدب ومنیع بن زیاد کے نام بھی شہداء میں وارد ہیں منہج بن سہم غلام حسین تھے۔
جو شہید کربلا ہوئے۔ 64 افراد کو قتل کرنے کے بعد شہید ہونے والے معلی بن علی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ان کا سرا بن سعد نے اپنے ہاتھ سے جدا کیا۔ حر کے بھائی مصعب بن یزید حر کے ذریعے دربار حسین میں پہنچ کر نجات کی کشتی پر سوار ہو کر جنت رسید ہوئے۔ زیارت ناحیہ میں اسلم بن کثیر پر بھی سلام وارد ہے جب کہ مسلم بن کناد پر زیارت رجبیہ میں سلام درج ہے یہ دونوں شہید کربلا ہیں۔ ریاض الشہادة میں محمد ابن انس بن ابی دجانہ ، زیارت ناحیہ ورجبیہ میں مسعود بن حجاج کو جب کہ ناسخ التواریخ میں محمدابن مطاع کو شہدائے کربلا میں شمار کیا گیا ہے مجمع بن عبداللہ عائذی جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے لڑنے والوں میں سے ایک تھے اپنے بیٹے عائذ کے ہمراہ قیس ابن مسہر صیداوی کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے کربلا پہنچے اور شہید ہوئے انہوں نے بھی قیس کی شہادت کی خبر کربلا پہنچائی تھی مجمع بن زیاد جھمی صحابی رسولۖ تھے ان کے بہت سارے ہم شہری امام حسین کے ساتھ گئے مگر منزل زبالہ پر کمزور ایمان واپس آگئے جہاں حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تھی مگر مجمع استقامت سے کربلا پہنچے اور شہید ہوئے مؤذن امام حجاج کے غلام مبارک بھی معرکہ کربلا میں شہید ہوئے۔ابن مالک بن عبداللہ جابری پر بھی زیارت رجبیہ میں سلام وارد ہے۔
مالک بن دودان کو نفس المہموم میں مالک بن اوس اور تاریخ اعثم کوفی اور نفس المہموم میں مالک ابن انس کاملی کو شہداء میں لکھا گیا ہے۔ جنگ احد میں کافروں سے لڑنے والے صحابی عتیق تغلبی کے فرزند کنانہ عبداللہ ہمدانی کے فرزند قیس ، حجاج سعدی کے ساتھی قعنب بن عمرو کا ذکر بھی شہداء میں وارد ہے۔قرہ بن ابی قرہ غفاری نے 68 لوگوں کو قتل کر کے شربت شہادت نوش فرمایا ماسلط تغلبی اور کردوس دونوں بھائی تھے جو جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے 130 افراد کو قتل کرنے والے غلام امام حسن مزوازان کی شہادت کا ذکر ریاض الشہادہ میں ہے جب کہ نافع اور حر کے غلام بھی شہید ہوئے۔۔۔جاری ہیگذشتہ سے پیوستہ
شیخ القراء بریر بن خضیر ہمدانی ، حضرت علی کے اصحاب میں شمار ہوتے تھے انہوں نے حضرت علی اور امام حسن کے فیصلوں کو جمع کر کے کتاب ترتیب دی تھی یہ بھی شہداء میںسے ہیں ابوالحتوف بن حارث اور ان کے بھائی فوج اشقیاء میں تھے استغاثہ حسینی پر لبیک کرتے ہوئے تائب ہو کر شہداء کربلا میں شامل ہوئے۔
امیہ بن سعد طائی آٹھویں محرم کو کوفہ سے فوج حسینی سے ملحق ہوئے اور جام شہادت نوش کیا زیارت رجبیہ میں بدر بن رقیط پر سلام کیاگیا ہے جو شہید کربلا ہیں بشر بن عمر حضرمی کے شہدائے کربلا میں ہونے کی دلیل زیارت ناحیہ میں سلام ہے یہ وہ خوش مقدر ہیں جنہوں نے امام حسین کے قلادئہ بیعت کے اٹھانے پر انہیں کربلا چھو ڑ جانے کا فرمایا تو انہوںنے عرض کیا مجھے جنگلی درندے نوچ کر کھا جائیں کہ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں امام زمانہ نے زیارت ناحیہ کے ذریعے ان کے ایثار کا شکریہ ادا کیا ہے یہ حضرموت کے تھے ان کے فرزندرے میں قید ہوگئے تھے انہوں نے کہا کہ بیٹے کو اللہ چھڑائے گا میں رسول ۖ کے بیٹے کو کیسے چھوڑوں بکر ابن حیی ثعلبی صحابی رسول ۖ تھے یہ بھی بہک کے عمرسعد کے لشکر میں آئے مگر تائب ہو کر جانثار حسین بن گئے۔
وقائع الحوادث میں ہے کہ حر کے بیٹے بکیر نے اپنے باپ کے ہمراہ لشکر حسینی کو جائن کیا پچیس لوگوں کو بکیر نے فی النار کیا ،اس کے بعد پھر دیگر 54 کوفی النار کیا۔ جابر بن حجاج کوفہ کے رہنے والے تھے کوفیوں کی بے وفائی کے وقت یہ روپوش ہوگئے بالآخر کربلا پہنچ کر لشکر حسینی میںشامل ہوئے اورمنصب شہادت پر فائز ہوئے ، جابر بن عروہ غفاری بوڑھے صحابی اور عبادت گزار تھے جنگ بدر وحنین کے مجاہدوں میں سے تھے ، انہوں نے ابرؤں کو بلند کرنے کے لئے آنکھوں کے اوپر رومال باندھا زیارت رجبیہ میں جبلہ بن عبداللہ پر بھی سلام کیا گیا ہے شجاعان کوفہ میں سے تھے ایک جبلہ بن علی شیبانی تھے جو جنگ صفین میں باپ اور نینوا میں بیٹے کے ساتھ تھے یہ بھی حملہ اولی میں شہید ہوئے حملہ اولی میں جنادہ ابن کعب بھی شہید ہوئے۔
تاریخ ابن عساکر نے جنادہ بن حارث انصاری سلمانی ازدی کو شہید کربلا لکھا ہے یہ عذیب الہاجانات نامی جگہ پر متصل فوج حسینی ہوئے تھے۔ انہوں نے حضرت مسلم کی بیعت کی تھی زیارت ناحیہ میں ان پر بھی سلام کیا گیا ہے زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں جندبٍ ابن حجیر پر بھی سلام درج ہے یہ بطن الدمہ نامی جگہ پر کاروان حسین سے منسلک ہوئے اور حملہ اولی کے شہید ہیں پہلے حملے کے شہدا میں جوین بن مالک تمیمی اور حارث بن امروء القیس کندی کے نام بھی ہیں جو عمرسعدکو چھوڑ کر امام عالی مقام کے لشکر سے ملحق ہو کر شہید ہوئے حارث بن نبہان امیر المؤمنین کے نوکروں میں سے تھے حباب بن حارث اور حباب بن عامر بھی پہلے حملے کے شہیدہیں۔ حبشہ بن قیس تہمی ہمدانی کا نام بھی شہداء میں درج ہے۔ابن زید سعدی ابن مسعود نہشلی کا خط بصرہ لے آئے اور پھر ہمرکاب سرکار سیدالشہدائ ہوگئے مؤذن امام تھے صرف حضرت علی اکبر نے صبح عاشور کی اذان کہی ورنہ سرکاری مؤذن حجاج تھے۔
18 یزیدیوں کو ہلاک کرنے کے بعد شہید ہوئے ثرید بن تبیط بصرہ سے اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ کو اپنے ہمراہ لائے تھے یہ تینوں شہید ہوئے طبری نے بروایت ابی مخنف لکھا ہے کہ یزید بن ثبیط ، عامر بن مسلم عبدی ، اور ادہم بن امیہ کے ہمراہ مکہ کے باہر سے ملحق کاروانِ حسینی ہوئے تھے۔
حبیب ا بن مظاہر اسدی نے 50 یزیدیوں کو قتل کیا اور شہید ہوئے ، ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں لکھا ہے کہ یزید بن معقل بن عوف بن عمر صحابہ کرام رسول ۖ میں سے تھے۔ ابصار العین میں لکھا ہے کہ یہ بزرگوار بہترین شاعر اور بہادر تھے یہ مکہ سے ملحق ہوئے۔یحیٰی بن ہانی بن عروہ اپنے باپ کی شہادت پر مخفی ہوگئے جب انہیں کربلا کی خبر ہوئی تو نصرت حسین کیلئے پہنچ کر شہید ہوئے ، ہفہاف بن مہند راسبی ازدی شجاع دلاور اور عدیم المثال تھے۔
رجال ما مقانی میں لکھا ہے کہ یہ بصرہ کے رہنے والے تھے بصرہ سے اس وقت کربلا پہنچے جب جنگ ختم ہوچکی تھی یہ واحد شہید ہیں جنہوں نے فاطمہ کے لال کی شہادت کے بعد انتقامی جنگ کربلا کی سرزمین پر لڑی اور شہید ہوئے یحییٰ بن کثیر اور یحییٰ بن سلیم مازنی بھی ان خوش نصیبوں میں ہیں اول الذکرنے شہادت سے قبل 50 یزیدیوں کو ہلاک کیا نعیم بن عجلان اور نعمان بن عمر راسبی بھی شہدائے کربلامیں سے ہیں نصر بن نیزرنجاشی کی اولاد میں سے تھے۔ بچپن میں صحابی رسولۖ ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا انہی کو حضرت علی نے صدقہ کے ایک کنویں کی تحریر وقف لکھ کردی تھی ‘ جسے عین نیزر کہتے ہیں یہ بھی شہید کربلا ہوئے انصار حسین میں موقع ابن ثمامہ اسدی بھی حر کی طرح تائب ہو کر آئے وہ زخموں سے چور ہوئے ایک سال بعد زارہ نامی بحرینی شہر میں ملک بدری کی سزا میں شہید ہوئے اس لئے کہ ابن زیاد نے انہیں تبعید کروادیاتھا۔ مقسط بن زہیر اور منیر بن عمر واحدب ومنیع بن زیاد کے نام بھی شہداء میں وارد ہیں منہج بن سہم غلام حسین تھے۔
جو شہید کربلا ہوئے۔ 64 افراد کو قتل کرنے کے بعد شہید ہونے والے معلی بن علی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ان کا سرا بن سعد نے اپنے ہاتھ سے جدا کیا۔ حر کے بھائی مصعب بن یزید حر کے ذریعے دربار حسین میں پہنچ کر نجات کی کشتی پر سوار ہو کر جنت رسید ہوئے۔ زیارت ناحیہ میں اسلم بن کثیر پر بھی سلام وارد ہے جب کہ مسلم بن کناد پر زیارت رجبیہ میں سلام درج ہے یہ دونوں شہید کربلا ہیں۔ ریاض الشہادة میں محمد ابن انس بن ابی دجانہ ، زیارت ناحیہ ورجبیہ میں مسعود بن حجاج کو جب کہ ناسخ التواریخ میں محمدابن مطاع کو شہدائے کربلا میں شمار کیا گیا ہے مجمع بن عبداللہ عائذی جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے لڑنے والوں میں سے ایک تھے اپنے بیٹے عائذ کے ہمراہ قیس ابن مسہر صیداوی کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے کربلا پہنچے اور شہید ہوئے انہوں نے بھی قیس کی شہادت کی خبر کربلا پہنچائی تھی مجمع بن زیاد جھمی صحابی رسولۖ تھے ان کے بہت سارے ہم شہری امام حسین کے ساتھ گئے مگر منزل زبالہ پر کمزور ایمان واپس آگئے جہاں حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تھی مگر مجمع استقامت سے کربلا پہنچے اور شہید ہوئے مؤذن امام حجاج کے غلام مبارک بھی معرکہ کربلا میں شہید ہوئے۔ابن مالک بن عبداللہ جابری پر بھی زیارت رجبیہ میں سلام وارد ہے۔
مالک بن دودان کو نفس المہموم میں مالک بن اوس اور تاریخ اعثم کوفی اور نفس المہموم میں مالک ابن انس کاملی کو شہداء میں لکھا گیا ہے۔ جنگ احد میں کافروں سے لڑنے والے صحابی عتیق تغلبی کے فرزند کنانہ عبداللہ ہمدانی کے فرزند قیس ، حجاج سعدی کے ساتھی قعنب بن عمرو کا ذکر بھی شہداء میں وارد ہے۔قرہ بن ابی قرہ غفاری نے 68 لوگوں کو قتل کر کے شربت شہادت نوش فرمایا ماسلط تغلبی اور کردوس دونوں بھائی تھے جو جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے 130 افراد کو قتل کرنے والے غلام امام حسن مزوازان کی شہادت کا ذکر ریاض الشہادہ میں ہے جب کہ نافع اور حر کے غلام بھی شہید ہوئے۔۔۔جاری ہے