آیت اللہ خمینی کی قیادت میں جو ایرانی انقلاب آیا تھا،اس کی اساس دراصل شاہِ ایران کے ظلم و ستم سے نجات اور امریکی بالادستی کے خاتمہ پر رکھی گئی تھی۔ اسی لئے یہ تحریک وسیع البنیاد تھی۔ شدت پسند علمائے کرام بھی اس میں شامل تھے اور کٹر ملحد، بے دین اور سیکولر بھی۔ شاہِ ایران کی خفیہ ایجنسی ”ساواک” بیک وقت دو طرح کے لوگوں کو گرفتار کر کے اذیت خانوں میں لے جاتی، ایک وہ نوجوان جس نے اچانک داڑھی رکھ لی ہوتی اور وہ بار بار حْسینیاں (امام بارگاہ) یا مصلیٰ(مسجد) کے چکر لگاتا ہوا نظر آتا۔ یا پھر ایسے نوجوان کی شامت آتی جس نے بال بڑھا لئے ہوں، پھٹی ہوئی جینز پہنی ہو اور ان کے بقول ”شریفانہ” زندگی ترک کر دی ہو۔ مذہبی طبقہ اور کیمونسٹ انقلابی، دونوں اس تحریک میں ظلم و تشدد کا برابر کا شکار تھے۔ اسی لئے پوری انقلابی تحریک میں صرف ”مرگ بر امریکہ”، ”مرگ بر اسرائیل” اور ”مرگ بر شاہ” کے علاوہ کوئی نظریاتی نعرہ بلند نہ ہوا۔ آخری مہینوں میں جب مذہبی طبقے نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی اور آیت اللہ خمینی ایک مسلمہ قائد کے طور پر سامنے آ گئے تو پھر تمام مسالک، سیاسی گروہوں اور نسلی اقلیتوں کو ساتھ رکھنے کیلئے صرف ایک ہی نعرہ لگایا گیا۔اللہ اکبر… خمینی رہبر۔ ایران کا اسلامی انقلاب خالصتاً مغربی اندازِ انقلابات کی پیروی کرتا ہوا برپا ہوا تھا۔ اس طرح کے انقلابات کا آغاز انقلابِ فرانس سے ہوا، جہاں عوام بادشاہ کے خلاف سڑکوں،گلیوں اور بازاروں میں نکل آئے تھے۔ورسائی محل کا گھیرائو کر لیا گیا تھا۔ توڑ پھوڑ،گھیرائو جلائو کے دوران بیسٹائل کا قید خانہ توڑ کر قیدی رہا کرنے کے علاوہ مسلح تصادم کا کوئی دوسرا بڑا واقعہ نہیں ملتا۔ایران کے اسلامی انقلاب میں بھی عوامی احتجاج بہت بڑا ہتھیار تھا، جس کے مقابل میں شاہ کے مظالم بڑھتے چلے گئے اور پھر ایک دن اس عوامی احتجاج کے سامنے شاہ نے ہتھیار ڈال دیئے۔ایران کا یہ اسلامی انقلاب شہری زندگی کا انقلاب تھاجس کا مرکز تہران تھا۔ ایران میں 70 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے اور صرف تیس فیصد دیہات میں۔ایرانی انقلاب جدید شہری فیشن کا جدید اسلامی انقلاب تھا۔ اس کے مقابلے میں طالبان کے انقلاب نے جنگ وجدل کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔افغانستان کا معاشرہ بھی قبائلی نوعیت کا ہے اور وہاں شہری زندگی صرف چند شہروں تک محدود ہے۔ایران میں ہزاروں سال کی بادشاہت کی ایک روایت تھی،جبکہ افغانستان ہمیشہ سے بالکل جزیرہ نمائے عرب کی طرح دْنیا بھر کی تہذیبی زندگی سے کٹا ہوا ایک خطہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی جدوجہد اور طریقِ کار ایرانی مغربی طرزِ انقلاب سے بالکل مختلف اور سیدالانبیاء کے منہج انقلاب سے زیادہ قریب تھا۔ طالبان کی پہلی انقلابی جدوجہد، دراصل سوویت یونین کی شکست کے بعد جنم لینے والی آپس کی خانہ جنگی کے خلاف تھی۔ یہ منظر بالکل مدینہ میں ”اوس” اور ”خزرج” کی آپس کی لڑائیوں جیسا تھا، جو خالصتاً قبائلی تعصب کی بنیاد پر لڑی جاتی تھیں۔ افغانستان بھی سوویت یونین کے جانے کے بعد گروہی اور قبائلی تعصبات کی جنگ میں اْلجھا ہوا تھا۔ اوس اور خزرج کے قبائل نے جب اسلام قبول کیا تو حضرت سعد بن عبادہنے ایک خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ”یارسول اللہ ۖ عین ممکن ہے کہ آپ کے مدینہ آنے سے ہمارے آپس کے جھگڑے ختم ہو جائیں”۔ 15 محرم 1415ھ بمطابق 24 جون 1994ء کو جب ملا محمد عمر اور ان کے پچاس ساتھیوں نے قبائلی عصبیت سے بالاتر ہو کر صرف اسلامی شریعت کے اصولوں کے نفاذ کے ذریعے افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا تو نوے فیصد دیہی اور قبائلی افغانستان میں بغیر خون بہائے اور بڑی جنگ میں اْلجھے ایک ایسا ”خاموش انقلاب” آیا جس کی جدید دْنیا توقع بھی نہیں کر رہی تھی۔ طالبان کے اس انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے عالمی اور علاقائی طاقتوں نے دو قوتوں کو اْبھارا۔ ایک قبائلی عصبیت اور دوسرا مسلکی اختلاف۔ افغانستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں قبائلی عصبیت اور مسلکی اختلاف کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان دونوں عناصر نے بھی قوتِ اظہار کیلئے افغانستان کے شہری مراکز کو چنا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کو 27 ستمبر 1996ء کو کابل شدید لڑائی کے بعد فتح کرنا پڑا۔ طالبان کے شرعی قوانین ملک بھر میں آسانی سے نافذ ہو گئے۔ ان کی مخالفت صرف چند فیصد مغرب زدہ اشرافیہ نے کی۔ طالبان کے خلاف، مسلکی و نسلی عصبیت کا پرچم لہرا کر جنگ کا آغاز کیا گیا مگر ان کی یہ جنگ بھی صرف پانچ فیصد علاقے تک محدود تھی۔ طالبان نے سخت ترین شرعی قوانین بھی بیک جنبش قلم نافذ کر دیئے۔ یہاں تک کہ منشیات خصوصاً افیون کی کاشت جس سے لاکھوں افغانوں کا رزق وابستہ تھا اور جو دْنیا بھر کو برآمد کرنے والی 97 فیصد افیون کاشت کرتے تھے، اس کاروبار کو ملا عمر کے صرف ایک ”حکم نامے” کے ذریعے جڑ سے اْکھاڑ دیا گیا۔ ایرانی معاشرہ طالبان سے بالکل مختلف تھا۔ صدیوں سے پْرتعیش، شاہانہ ماحول کا عادی۔ شاعری، موسیقی، رقص و سرود اور شراب و شباب میں غلطاں۔ ایسے معاشرے سے کسی عالمِ دین کا ایک متفقہ رہبر کے طور پر اْبھرنا ہی کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ شہری زندگی کی وجہ سے وہاں قبائلی عصبیت نام کو بھی نہیں تھی۔ البتہ ان میں ایرانی بالادستی کا خمار ضرور موجود تھا۔ شاہِ ایران کے زمانے تک تہران ایک مغرب زدہ تہذیب، جنسی اختلاط اور عیشِ کدہ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ انقلاب کے شروع کے دنوں میں اس انقلاب کو اسلامی بنانے کیلئے اسکے دْشمنوں کا خاتمہ ضروری تھا کیونکہ یہ کسی بھی وقت ردّ انقلاب بن سکتے تھے۔ خود انقلابیوں کی صفوں میں کیمونسٹ خیالات رکھنے والی مجاہدینِ خلق کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ ایرانی انقلاب کے آغاز کے دن بڑے مشکل تھے۔ ایک طرف شاہ کے امریکی نواز وفادار فوجیوں کا قلع قمع کرنا اور دوسری جانب کیمونسٹ انقلابیوں کو اقتدار سے علیحدہ کرنا اور ساتھ ہی ایران کی عشرت زدہ اشرافیہ پر شرعی قوانین نافذ کرنا۔ یہ انتہائی مشکل کام تھا جسے آیت اللہ خمینی کی بصیرت نے آسان کر دیا۔ سب سے پہلے شاہ پرست امریکی نواز جرنیلوں کو پھانسیاں دی گئیں اور فوج پر اپنا اثرورسوخ مستحکم کیا گیا۔ اس دوران مجاہدینِ خلق حکومت میں شریک رہے لیکن ایرانی علمائ نے کمال مہارت سے ”پاسداران انقلاب” اور ”بسیج” کی صورت دو مسلح گروہ منظم کر لئے۔ اس کے بعد کیمونسٹ نواز مجاہدینِ خلق کو منافقین اور امریکی نواز کہہ کر حکومت سے علیحدہ کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جیل میں قید ان چالیس ہزار مجاہدینِ خلق کے قیدیوں کو ایک حکم نامے کے تحت سمری ٹرائل کر کے چشمِ زدن میں پھانسی دے دی گئی۔ آیت اللہ خمینی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے حکم نامے کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ ”از آنجاکہ منافقین خائن بہ ھیج وجہ بہ اسلام معتقد نبودہ و ھر چہ میگویند از روی حیلہ و نفاق آنھاست” (چونکہ یہ منافقین اور خائن اسلام پر یقین نہیں رکھتے اور جو کچھ وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں وہ ایک دکھاوا اور منافقت ہے)۔ اس کے بعد لکھا ”ان کے اپنے لیڈر نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ اسلامی نظامِ حکومت کے خلاف جنگ میں شریک تھا جو دراصل اللہ کے خلاف جنگ ہے”۔ آخر میں یہ حکم تحریر تھا۔ ”زندانھای سراسر کشور بر سر موضع نفاق خود پافشاری کردہ و میکنند، محارب و محکوم بہ اعدام میباشند” (وہ سب جو پورے ملک کی جیلوں میں ہیں اور منافقین (مجاہدینِ خلق) کی حمایت پر قائم ہیں، دراصل اللہ سے جنگ کر رہے ہیں اس لئے انہیں پھانسی دے دی جائے)۔ تاریخ میں بیک وقت ایک حکم نامے سے جیلوں کے اندر اتنی بڑی تعداد (چالیس ہزار) مخالفین کو پھانسی دینے کی نظیر نہیں ملتی لیکن انقلاب کے استحکام کیلئے یہ ضروری تھا ورنہ ایرانی اسلامی انقلاب صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ (جاری)
٭٭٭