پاکستانی معاشرہ میں تشدد کا رحجان تو پہلے سے موجود تھا لیکن کچھ عرصہ سے خواتین کے خلاف تشدد اور بدتہذیبی کا رحجان تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ کچھ ماہ قبل نور مقدمہ کا بیہمانہ قتل اور اب ایاز امیر کی سارہ کا قتل انکے بیٹے شاہنواز امیر کے ہاتھوں نے پورے ملک کو چونکا کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً اسلئے بھی کہ خواتین کو قتل کرنا ایک جاہلانہ عمل سمجھا جاتا رہا تھا۔ غیرت کا قتل یا شک کی بنا پر جان لینا تعلیم یافتہ طبقہ میں شاذو نادر ہی ایسا ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ رحجان معاشرے کے سلجھے ہوئے طبقات میں سرائیت کر گیا ہے۔ نورمقدمہ کا قتل انکے منگیتر اور جعفر برادرز کے مالکان کے فرزند نے کیا اور جس بیدردی اور وحشیانہ انداز اپنایا گیا ،ایک قتل تو وہ ہوتا ہے کہ قاتل نے پستول کی گولی چلائی یا کلہاڑی کا وار کیا اور قصہ ختم۔ قتل تو انسانی نسل کی ابتدا سے ہوتے آئے ہیں۔ انسانیت اور شیطانیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس طرح ابلیس بھی تو ایک فرشتہ تھا ایک نافرمانی نے فرشتہ سے شیطان بنا دیا۔ اسے شیطان اس کی انا نے بنایا جب حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم آیا تو ابلیس نے کہا میں آگ سے تخلیق کیا ہوا فرشتہ ہوں، میں اس مٹی کے بنے ہوئے آدمی کے سامنے سرنگوں کسے سو سکتا ہوں، بس اسی وقت مطعون کرکے آسمانوں سے پسلیوں میں دھکیل دیا گیا۔ ابلیس اور فرعون کی مماثلت بھی تکبر تھا۔ فرعون نے تو نعوذ بااللہ خدائی کا دعویٰ کردیا تھا۔ اسے اپنی طاقت پر ناز تھا جسے لیکر وہ موسیٰ کے تعاقب میں نیل دریا کے پیٹ میں غرق ہوگیا لیکن فرعون والی غلطی آج تلک کئی نادان انسان دہراتے ہیں اور پھر غرق ہوجاتا ہے۔ اقتدار اور دولت کی طاقت کم ظرف انسان میں ایک مصنوعی طاقت کا ورغلانے والا احساس پیدا کردیتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ اس مصنوعی طاقت کے بل بوتے پر کچھ بھی کرسکتا ہے حتی کہ وہ کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ جس طرح اقتدار اور دولت کا نشہ ہوتا ہے اس طرح کچھ نشہ آور ادویات بھی ہوتیں ہیں جو انسان کو وقتی طور پر بہلا کر اس احساس کو تقویت دیتی ہیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور اسے کچھ نہیں ہوگا یہ جو طاقت کا احساس اسے اس حد پر لے جاتا ہے جہاں سے انسان ذلت و رسوائی کی اس ڈھلوان پر گرتا ہے جہاں سے وہ کبھی واپس نکل نہیں سکتا۔ نورمقدم قتل اور سارہ راٹھور قتل کے ملزمان کے حصہ میں ایک مماثلت یہ ہے دونوں لاابالی ماں باپ کی کمائی ہوئی دولت پر پلنے والے درمیانی عمر کے اشخاص کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیںDARK WEBBکی اندھیری دنیا کے لیے لوگ اندھیروں کی راہ کے مسافر ہیں۔ انکے کئے ہوئے جرم نے انکی بھی آنکھیں کھول دیں اسی لئے ان دونوں سفاک قاتلوں کی قدر مشترک یہ ہے کہ انہوں نے فوراً اپنے قتل کا اعتراف کرلیا۔ سچ اگلوانے کیلئے پولیس کو زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑی۔
دوسری طرف خواتین کے خلاف پرتشدد رویہ اور زبان بھی آجکل ایک بڑھتا رحجان ہے پہلے تو ڈاکو خواتین کو دیکھ کر راستہ بدل دیتے تھے اب اچھے بھلے سیاسی رہنما خواتین ڈسٹرکٹ جج کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں اور انکے حواری مکہ اور مدینہ جیسے بابرکات جگہوں پر خواتین پر آوازیں کستے دکھائی دیتے ہیں۔ انکے لیڈر کو تو عدالتیں معاف کر دیتی ہیں لیکن سعودی عدالتوں نے تو مثالی سزائیں دیکر ایک اچھی مثال قائم کردی ہے۔ کل پھر لندن کی سڑکوں پر مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما اور وزیر کو تحریک انصاف کے یوتھیوں نے گھیر لیا۔ اس واقعہ کی کافی کلپس مختلف ٹی وی چینلزز اور یوٹیوب پر دیکھی جاسکتیں ہیں۔ راقم مریم اورنگزیب صاحبہ کے متعلق زیادہ کچھ نہیں جانتا لیکن جس صبر، عزم اور بہادری سے حراساں کرنے والے یوتھیوں کا سامنا کیا ہے۔ میرے دل میں انکی عزت اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ زمانے بھرنے دیکھا کہ جس پروقار طور پر انہوں نے ان ”یوتھیوں” سے مکالمہ کیا انکے چہرے پر کوئی گھبراہٹ یا خوف نہیں تھا، اور جس کافی شاپ میں انکے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اس شاپ کے مالک نے انہیں آفر کیا کہ میں پولیس کو فون کروں لیکن انہوں نے اس دکان مالک کو منع کرکے اپنی بڑائی کا ثبوت دیا اور بڑے تحمل سے اس سارے معاملے سے نپٹ کر خاموشی سے پیدل چلتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگئیں ،سارے آزاد میڈیا نے انکے طرز عمل کو سراہا۔ واقعے ہی آفرین ہے انکو!کہ طاقت رکھتے ہوئے بھی اسے استعمال نہ کرنا۔
٭٭٭٭