پاکستانی سیاست میں بڑھتی ہوئی ابتر صورتحال اور اس کے نتیجے میں مستقبل کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے گزشتہ کالم میں ہم نے واضح کیا تھا کہ حالات کسی بھونچال کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر مملکتی یا ریاستی فیصلے عوام کی منشاء و مرضی کے مطابق نہ کئے جائیں تو ملک ترقی کی جگہ ابتری کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے اور عوامی رد عمل کا نتیجہ یا تو عدم استحکام ہوتاہے یا آمریت کی راہ اپناتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی مقتدر قوتوں کو بھی کُھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور کمزور کی بیوی سب کی بھابی کے مصداق عالمی قوتیں اپنے مفادات و ایجنڈے کے تحت اس ملک اور ریاستی و سیاسی ایکٹرز کو اپنے تابع کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔
وطن عزیز پاکستان دنیا کے سات جوہری ممالک میں شامل اور واحد اسلامی جوہری مملکت، دنیا کی بہترین افواج اور غیر معمولی ہیومن ریسورس کا حامل ہونے کے باوجود عالمی قوتوں (خصوصاً امریکہ) کا مہرہ ہی بنا رہا ہے۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 1948ء سے لے کر آج تک پاکستان انکل سام کا مہرہ ہی بنا رہا ہے۔ CETO، CENTOسے لے کر پاکستان کے جوہری پروگرام، یو ایس ایس آر کی شکست و ریخت، امریکی توسیع پسندانہ مقاصد کے حصول اور محاذ آرائیوں میں کٹھ پتلی بن کر Do More پر صدقہ کرتا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا پاکستان کے جوہری اثاثوں پر عدم تحفظ کا اظہار اور پاکستان کو خطرناک ملک قرار دینے کا حالیہ بیان بھی وطن عزیز اور اس کی ریاستی و حکومتی مقتدرہ کو اپنے تابع رکھنے اور اپنی مرضی و مفادات کے مطابق استعمال کرنے کی ہی ایک کڑی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بائیڈن کے اس دشمنانہ بیان پر حکومت ریاست، سیاست اور عوام متحد ہو کر نہ صرف شٹ اپ کال دیتے اور ایک آزاد مملکت کے طور پر ایک متفقہ عالمی احتجاج کا رویہ اپناتے، معاملہ پر ایک احتجاجی مراسلہ پر پاکستان پر دبائو اور اپنے تابع رکھنے کی امریکی سازش کو نپٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومتی رویوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امپورٹڈ حکومت کے وزیر احسن اقبال نے امریکہ کو باپ قرار دیتے ہوئے اس گھنائونی سازش کو قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ادھر امریکی ترجمان نے بیان دیتے ہوئے بائیڈن کے اس بیان کو کوئی نئی بات نہ ہونا قرار دیا ہے، گویا امریکی انتظامیہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول پر پہلے سے ہی عدم اطمینان و عدم تحفظ رکھتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ IAEA نے متعدد بار پاکستان کے جوہری نظام اور اثاثوں کے تحفظ اور کمانڈو کنٹرول پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے خود امریکہ اور دیگر جوہری مملکت کے انتظام کے مماثل قرار دیا ہے۔ امریکہ کو بھارت کے جوہری نظام میں موجود خامیاں اور کمزوریاں نظر نہیں آئیں کہ جس کا یورینیم کُھلے بندوں بک رہا ہے بھارت کے نیوکلیئر ڈرون کا پاکستان آجانا کیا بھارت کی کمزوریاںنہیں جوبائیڈن کو نظر نہیں آئیں۔ سچ یہی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی امریکی صدر کو اپنی مقبولیت برقرار رکھنے اور آئندہ کی متوقع شکست سے بچنے کیلئے کانگریشنل کنونشن میں یہ بات کرنی ہے کہ بھارتی نژاد کملا ہیرس اس کی نائب صدر ہے اور اسے بھارتی کمیونٹی کو اپنی سپورٹ کیلئے پاکستان مخالف بیانیے سے INTACT رکھنا تھا۔ پاکستان کی خطے میں اسٹریٹجک اہمیت کے باوجود امریکہ کی پاکستان پر دبائو رکھنے اور چین و روس کیخلاف بھارت سے نرم رویہ رکھنا اس کا عالمی برتری کا ایجنڈا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو کٹھ پتلی بنایا ہے۔ عمران خان کے متعینہ روئیے اور کسی دبائو میں نہ آنے، Absolutely Not کے اظہار کے بعد امریکہ کے منفی رویے، سازش کے تحت امپورٹڈ حکومت لانے اور ہینڈلرز کے تعاون سے کپتان کو حکومت سے محروم کر دیا گیا لیکن کپتان کے آہنی عزم اور عوامی حمایت سے یہ امریکی سازش ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ کٹھ پتلی حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کے حلق کی ہڈی بن چکی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کے سیاسی، معاشرتی و معاشی حالات جس نہج پر پہنچے اور جو سیاسی عدم استحکام کی صورت سامنے آئی ہے ،وہ نہ صرف وطن عزیز بلکہ عوام کیلئے بھی سوہان روح بنی ہوئی ہے۔
ان حالات پر ہم اپنے کالموں میں اپنی معروضات پیش کرتے رہے ہیں ۔ اور سیاسی و قومی استحکام کیلئے فوری وشفاف انتخابات کے انعقاد سے حقیقی عوامی قیادت کو کارحکومت وریاست چلانے کی گزارش کرتے رہیں ہیں۔ حالات کا تجزیہ کریں تو امریکی ایجنڈے کے دبائو میں گھرے ہوئے سیاسی ہرکاروں نے اپنی مجبوریوں، مفادات اور انکل سام کی خوشنودی کیلئے نہ ملک کا مفاد پیش نظر رکھا، نہ قوم کے مفاد کو مقدم رکھا۔ عمران کی مقبولیت اور بیانیہ دن بہ دن افزوں تر ہوتا گیا۔ حکمران اس خوف سے انتخابات ملتوی کراتے رہے کہ اس کے نتیجہ میں عمران فتح مند ہوگا اور ان کی سیاسی کشتی بالکل ڈوب جائیگی۔ گزشتہ اتوار کو ہونیوالے ضمنی انتخابات میں تیرہ چودھا جماعتوں کے ٹولے کو ہار کر مردان سے کراچی تک عمران خان نے جس طرح فتح و کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ہیں، اس نے امپورٹڈ حکمرانوں اور ریاستی سپورٹرز کو مایوسی کے اندھیروں میں ڈبو دیا ہے۔ عمران نے سوموار کو خصوصی انٹرویو میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اکتوبر میں عام انتخابات کا اعلان نہ ہوا تو لاک ڈائون بھی ہوگا اور مارچ بھی ہوگا، نتائج کی ذمہ داری موجودہ کرپٹ حکمرانوں اور فیصلہ سازوں پر ہوگی۔
ہمارے ذرائع کے مطابق حالیہ ضمنی انتخابات میں کپتان کی 87 فیصد حلقوں میں کامیابی اور مخالف ٹولے کی خصوصاً ن لیگ کی بُری طرح شکست اور ووٹ بینک میں بد ترین کمی نے فیصلہ سازوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ پس پردہ رابطوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ چودھری شجاعت کے کپتان سے رابطے، ایم کیو ایم کی حالیہ ضمنی انتخاب میں شکست اور ٹیسوری کے گورنر نامزدگی پر مایوسی کا اظہار اور اعتزاز احسن کی عمران کی بھرپور حمایت، نیز چودھری نثار کی کپتان سے ملاقات بہت سے اشاروں کا باعث اور تبدیلی کا عندیہ ہے۔ ہمارا اندازہ تو یہ بھی ہے کہ اکتوبر کا آخری ہفتہ سیاسی منظر نامے میں بہت سے فیصلوں اور اقدامات کا حامل ہوگا۔ محسوس ہو رہا ہے کہ لانگ مارچ سے پہلے ہی امپورٹڈ و بدعنوانوں کا کوئیک مارچ ہو جائیگا، فیصلہ سازوں کے حوالے سے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔
اب دیکھئے ٹھہرتی ہے، جا کر نظر کہاں کپتان نے حالیہ کامیابی سے سیاسی منظر نامہ کو مکمل طور سے تبدیل کر دیا ہے۔ سچ ہے عوام کی طاقت سب سے بڑھ کر ہے اور عمران عوام کی طاقت ہے۔ 16اکتوبر کے ضمنی انتخاب عوامی ریفرنڈم ثابت ہوئے ہیں۔
٭٭٭