فیض اور فائز!!!

0
164
ماجد جرال
ماجد جرال

کیا باجوہ ڈاکٹرائن اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے، دیار غیر میں بسنے والے پاکستانی عموما پاکستان سے متعلق سیاسی معاملات میں گہری دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ایسے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں، ایک محفل میں بیٹھے ہوئے ہمارے ایک پاکستانی دوست نے یہ سوال پاکستان سے آئی ہوئی ایک اہم شخصیت سے کیا۔انہوں نے اس کے جواب میں جو بات کی اس سے مجھے لگا کہ شاید معاملات ابھی ختم نہیں ہوئے،پاکستان میں شروع ہونے والا سیاسی تبدیلی کا پروجیکٹ اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے آج بھی بے چین ہے، ساری باتیں تو اس کالم میں لکھنا ممکن نہیں لیکن ایک بات جو اس شخصیت کی جانب سے کی گئی بطور صحافی مجھے اس میں کافی وزن معلوم ہوا۔یہ ایک ایسے معاملے سے متعلق ہے جس کو شاید ابھی میڈیا میں بہت جلد دوبارہ اچھالا جائے گا،ان کی بات کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ آج بھی رواں برس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، آپ کو آپ کی بات بھی پلیٹ فارم ایوان صدر ہی استعمال ہوگا، آپ کی بات بھی موجودہ حکومتی اتحاد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اس خواہش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، موجودہ حکومتی اتحاد کو یہ حکومت پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی گئی بلکہ اس کے پیچھے بہت سارے مقصد موجود ہیں۔ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا موجودہ حکومتی اتحاد سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہونے والی کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور جس طرح اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو آسانی سے گھر بھجوا دیا گیا ایسا کچھ ہیں جسٹس فائز عیسی کے خلاف بھی کیا جائے، اگرچہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وکلا تنظیموں کی جانب سے بھی کافی سپورٹ حاصل ہے مگر جب تک سیاسی سپورٹ ساتھ نہیں ملتی اس وقت تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گھر جانا ممکن نہیں، ان صاحب کے بقول حکومت کو اس معاملے پر خوب بلیک میل بھی کیا گیا، عمران خان کا پتہ ابھی تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے مگر کسی بے صورت حکومتی اتحاد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اس خواہش کو اپنے سیاسی زندگی کے لیے قابل قبول نہیں سمجھ رہا۔غرض کہ جس چنگاری کو ہم سمجھ رہے ہیں کہ بجھ چکی ہے، وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حقے کی راکھ کے نیچے آج بھی کہیں جل رہی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں ایک بار پھر عدالتی جنگ کا آغاز دیکھنے کو مل سکتا ہے،دیکھتے ہیں کہ باجوہ ڈاکٹرائن کے روح رواں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور اس ڈاکٹرائن کو بنانے والوں کے خلاف مستقبل میں ممکنہ طور پر سخت فیصلہ لکھنے والے جسٹس فائز عیسیٰ میں سے تاریخ کس کو کس روپ میں سامنے لے کر آتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here