وفاقی کابینہ نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ وزارت قانون کی مشاورت سے الیکشن کمیشن کو فنڈز کی فراہمی کے معاملہ میں پارلیمان سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے طریقہ کار اور ضابطے کے مطابق سمری تیاری کرے۔پارلیمان سے رہنمائی کے نام پر بظاہر وفاقی حکومت 14مئی کو پنجاب اسمبلی انتخابات کروانے کے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کی حکم عدولی کے جواز تراش رہی ہے۔ اس معاملہ میں وفاقی کابینہ کی نیت کا اندازہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عدالتی حکم کو مسترد کرنے کے اعلان سے لگایا جا سکتا ہے۔بدقسمتی سے یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی حکومت اپنی ہی عدالتوں کے فیصلے کو صرف سیاسی مفاد اور ذاتی انا کے لئے نہ صرف مسترد کر کے بلکہ حکومتی وزرا اور جماعت کے چھوٹے بڑے رہنما ججز کے فیصلے پر تنقید سے بڑھ کر معزز جج صاحبان کی کردار کشی پر اتر آئیں۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ آئین اور قانون کے ساتھ یہ مذاق پارلیمان کی بالادستی کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی بالادستی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ہے اور اس سے بھی مفر نہیں کہ پارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کو ایوان سے باہر دھکیل کر پارلیمنٹ کی بالادستی پر خود سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ 342کے ایوان میں لگ بھگ نصف ارکان اسمبلی پارلیمنٹ میں موجود نہیں اور حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اختیارات کو محدود کرنے کے لئے قانون سازی کررہی ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت ناپسندیدہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے عدلیہ کو دبائو میں لانے کے لئے عدالتی اصلاحات لانا چاہتی ہے بعض آئینی اور سیاسی امور کے ماہرین اس حکومتی اقدام کو انتخابات میں رکاوٹ ڈالنا بتاتے ہیں۔ اس تاثر کو یکسر مسترد کرنا اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ خود حکمران اتحاد کے وکلا کی اکثریت یہاں تک کہ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی آن ریکارڈ یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات میں 90روز سے زائد تاخیر ممکن نہیں۔ بعض حلقے بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنمائوں کا یہ بھی خیال ہے کہ وفاقی حکومت عدالتوں سے بدعنوانی کرپشن کیخلاف فیصلوں کی وجہ سے عدالتوں کو متازع بنا رہی ہے ۔پہلے حکمران اتحاد نے کرپشن کے مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے نیب قوانین میں تبدیلی کی اور اب انتخابات میں شکست کے خوف سے الیکشن سے فرار کے لئے عدلیہ کے پر کاٹنے پر اتر آئی ہے۔ عدلیہ کو تقسیم کرنے اور معزز جج خاص طور پر ان جج صاحبان جنہوں نے پانامہ میں مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف فیصلے دیے ،ان کی کردار کشی کی وجہ سے ججز سے انتقام کا الزام بھی حکومت پر لگایا جا رہا ہے جو یقینا حکومت اور ملک دونوں کے مفاد میں نہیں۔ خاص طور پر جب آئین شکنی کا جواز پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر تراشا جا رہا ہو۔ان الزامات کو نظرانداز کرنا اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی بنانے کے لئے توہین عدالت کے قانون میں ترمیم اعلی عدلیہ سمیت عدلیہ میں ججز کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کرنے پر مشاورت کی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی اشرافیہ نظام عدل کو اپنی منشا کے مطابق ہانکنے کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کرنا چاہتی ہے اور جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں اس لئے پارلیمان سب سے بالادست ہے ۔یقینا حکمران اتحادکا یہ دعوی درست ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ حکمران اتحاد جس ووٹ کی طاقت کو اپنے عزائم کے لئے تکمیل کے لئے استعمال کر رہا ہے حکومت اس ووٹ سے خوفزدہ ہو کر انتخابات سے فرار کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے پارلیمان کے تقدس کے نام پر نظام عدل اور معزز جج صاحبان کے کردار کے بارے میں شکوک شبہات پیدا کئے جا رہے ہیںیہاں تک کہ عدالتی اصلاحات کے نام پرعدلیہ کے احتیار کو محدود کرنے کے لئے جو قانون سازی کی جا رہی ہے وہ بھی آئینی اور قانونی خامیوں سے پاک نہیں۔حکمران اتحاد کا یہ طرز عمل نہ صرف جمہوری رویوں کے منافی ہے بلکہ جمہوری نظام کے لئے بھی کسی طور مناسب نہیں۔ حکومت طاقت کے بل بوتے پر آئین اور قانون کی ناک موڑ کر غیر جمہوری طا قتوں کے لئے مداخلت کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ بہتر ہو گا کہ ذاتی مفاد عناد اور انا کی تسکین کے لئے پارلیمان کو استعمال کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے تقدس کو بچانے کے لئے سعی کی جائے۔ جمہوریت اور نظام کی مضبوطی کے لئے ٹکرائو کی بجائے مفاہمت کا طریقہ اپنایا جائے اور سیاسی معاملہ کو سیاسی انداز میں حل کیا جائے ناکہ اپنی مرضی اور دھونس مسلط کرنے کے لئے نظام عدل اور قانون کو ہی بدل دیا جائے۔حکومت کو حیلہ سازی کی بجائے سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایت پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کے لئے اکیس ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے چاہئیں۔پارلیمنٹ کی بالا دستی کسی ایک جماعت کی منشا پر نہیں بلکہ عوام سمیت تمام سٹیک ہولڈروں کے مفادات کا تحفظ کرنے سے ممکن ہو گا ۔
٭٭٭