تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے لئے سائفر سے متعلق مقدمہ اور فرد جرم کے نتیجہ میں ہونے والی پیشقدمی کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں اور یہ مقدمہ جس طرح جارہا ہے وہ جماعت اور رہنما دونوں کیلئے کم فکریہ ہے۔ لیکن جھوٹ کے سوداگر اور انکے میر کارواں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جس طرح شطر مرغ، طوفان آنے پر اپنا سر ریت میں ڈال کر اپنے کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف اس ساری تحریک کے سحر میں رہنے والے لوگوں کے اوپر جو مسئلہ ایک دھندہ کے مانند چھایا تھا وہ دھندہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ جھٹتی جارہی ہے اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال مزید واضع ہو جائیگی۔ ویسے بھی فوج ظفر موج کے جمانے کے بعد ویسے بھی تحریک انصاف کے سارے موتی بکھر گئے ہیں کوئی جہانگیر ترین کی جھولیں میں گر گئے توکچھ پرویز خٹک لوٹ کر لے گئے باقی جو بچے تھے وہ سلطانی گواہ بننے کی سعادت حاصل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ باقی کک وی نئیں رسیا”بڑے بھائی صاحب فی الحال تو اڈیالہ میں ہیں لیکن خبریں یہ بھی آرہی ہیںکہ یہاں سے پھر لانڈھی جیل اور پھر مچھ جیل کی طرف یہ پارسل جائے گا۔ انتخابات گزارنے کے بعد ایک آدھ مہینہ میانوالی جیل چھٹیاں گزارنے آئیں گے۔ عوام کو اور خصوصاً کھلاڑیوں کو بجلی کا تین ہزار کلو واٹ کا جھٹکا انکے ہیرو عثمان ڈار نے دیا ہے۔ اس سیالکوٹی منڈے نے تو جو سیاسی تحریک کی پیشانی پرمل دی ہے یہ تاریخ میں ایک بہت بڑی کالک کے مانند اس بیوفائی کو یاد دلاتی رہے گی۔ میرا کپتان میرا ہیرو کو اب میرے ملک کا غدار بنانے کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ جو سیاسی رہنما اپنے خوشامدیوں میں رہ کر خوش رہتے ہیں انکا انجام انتہائی برا ہوتا ہے تعریف فقط میرے رب کی اچھی لگتی ہے کسی فطاوار انسان کے پاس اتنا صرف ہی نہیں ہوتا وہ اتنی تعریف کو ہضم کرسکے۔ جو منہ پر آپکی تعریف کرے اس سے پرہیز لازمی ہے کیونکہ ایسے لوگ نادان دشمن ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹرولز کے کاندھے پر کاغذی شیر تو بنائے جاسکتے ہیں لیکن نیز آندھیاں اور سیلاب گزر جانے کے بعد اس جعلی شیر کی کھال بھی جانے کے بعد ایک ناتواں بکری نکال آتی ہے۔ زنداں کی رات نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے اور جس شخص کو نیند اس وقت نہ آتی ہو جب تک سینکڑوں لوگ اسکی تعریفوں کے قلا بے نہ ملاتے ہوں، اس کے لئے زنداں کا بستر مصرہ بن جاتا ہے جہاں رات کی تاریکی میں اسے بد روحیں اپنی ڈراونے وجود سے اتنا خوفزدہ کرتی ہیں کہ الامان، استغفار کے علاوہ کوئی راہ نجات نہیں ہے۔ ہم سب انسان خطا کے پتلے ہیں لیکن جو گناہ کرکے اتراتا ہے وہ رب کے سامنے کریہہ ترین گنہگار ہوتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ زمین کی طرف دیکھ کر آہستہ آہستہ قدم زمین پر رکھو، زمین پر پیر پٹخ کر چلنے والوں کو تو زمین بھی بددعا دیتی ہیں۔ ایک انسان جب اکیلا چلتا ہے تو وہ فقط اپنی بداعمالیوں کیلئے جوابدہ ہوتا ہے جب کوئی ہزاروں اور لاکھوں کو اپنے پیچھے لیکر گناہوں کے گڑھوں میں دھکیلا دیتا ہے تو وہ ان کے الفاظ اور عمل کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر محسن آپ کے خیال سے اتفاق نہیں کرنے پر جس کے پیروکار گندی گندگی گالیاں دیتے ہوں۔ نہ کسی کی ماں، بہن نہ بیٹی کا کوئی احترام ہو الفاظ میں کوئی شائستگی تو یہ کسی باکردار رہنما کے پیروکار تو نہیں ہوسکتے جس کے کاندھے چوبیس کروڑ پاکستانیوں کی بوجھ اٹھانے کے قابل ہوسکتے ہوں۔ سیاسی اختلافات میں جتنی ناشائستگی تحریک انصاف نے پیدا کی ہے اس ذلت نے معاشرے کی چولیں ہلا دیں ہیں۔ ٹھیک ہے پاکستانی معاشرے میں75سالہ تاریخ میں معیار گرتا ہی گیا ہے، بدعنوانی، بے ایمانی، ملاوٹ دھوکا دہی جھوٹ غرض کہ کوئی ایسا نامور جس سے پاکستانی عوام محفوظ نہیں رہی۔ لیکن گالم گلوچ کی روایت اور بدتہذیبی جو قوم یوتھ نے جس طرح عروج پر پہنچائی ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ عدم برداشت اتنا کا ٹی وی ٹاک شو میں ایک تحریکی وکیل نے ایک سینٹر کو لائیو شو میں دھوبی پٹکا کرکے جو تھوڑی بہت کثر رہتی تھی وہ بھی پوری کردی۔ عدم برداشت تو اب معمول کی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اسکے بعد اب کیا آنے والا ہے وہ سوال ہے جسکا جواب راتوں کی نیند اجیرن کئے ہوئے ہے۔ آنے والے وقت میں پاکستان میں کچھ ٹولے ایسے پیدا ہونگے جو گھروں میں بڑی بڑی کوٹھیوں میں داخل ہو کر مال کے ساتھ عزتیں بھی پامال کرینگے۔ جو آج سے چالیس سال پہلے سابق چیف جسٹس عطا بندیال کے کزن فاروق بندیال نے اداکارہ شبنم اور روہن گھوش کے گھرانے کے ساتھ کیا تھا۔ جسے پھانسی کی سزا ملی تھی لیکن اس بے اصول خاندان نے اپنا اثررسوخ استعمال کرکے ضیا الحق کے ذریعے سزائے موت معاف کروا دی اور اسلامی کانفرنس کے سربراہ کی سزائے موت سعودی عرب، ترکی، ایران، امارات، قطر شام اور تمام اسلامی مممالک کی اپیلوں کے باوجود بھی پاکستان کو پہلا متفقہ آئیں اور ایٹمی قوت دلوانے والے ایک عظیم رہنما کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دیکر قانون اور آئین کی دھجیاں اڑا دیں گئیں۔ آج فاروق بندیال کا پاکستان پھل پھول رہا ہے ذوالفقار علی بھٹو کی بیگناہ قتل کی سزا پاکستان کی عوام بھوک افلاس اور لاقانونیت کے روپ میں بھگت رہی ہے۔ آج گڑھی خدا بخش کی پانچ قبریں آج بھی چیخ چیخ کر اپنے خون ناحق کا مواوا چاہتیں ہیں لیکن عطا بندیال نے انکو تو انصاف نہیں دیا جن لوگوں نے پاکستان کو آج تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ اس کو خوش آمدید کہتے کہاGOOD TO SEF YOU وہ جج اور اس کا رشتہ دار فاروق بندیال کا ٹولہ آج بھی پاکستان پر اپنا تسلط رکھے ہوئے ہیں غریب عوام کے سچے رہنما اور اس کا سارا گھرانہ آج بھی لاڑکانہ کے تپتے صحرا میں انصاف کا منتظر ہے اپنے کئے نہیں چوبیس کروڑ پٹھے پرانے کپڑے پہنے ننگے پیر اور بھوکے پیٹ لوگوں کیلئے انصاف کا منتظر ہے پس منظر میں علن فقیر کی آواز جب جب سرخ پھول کھلیں گے ہم ملیں گے۔
٭٭٭٭