طارق شیروانی، نیویارک میں پہلے مسلم سینٹر کے بانی!!!

0
65
کامل احمر

طارق شیروانی انتقال کر گئے، ایک دور ختم ہوگیا وہ نیویارک میں پہلے مسلم سینٹر کے بانی تھے اور ان کے ساتھ انکے دوست تھے جن میں مبین احمد کا نام اوپر ہے آج انہیں دفنا دیا گیا۔ مسلم سینٹر فلشنگ کی مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اور اس میں پورے نیویارک اور دوسری ریاستوں سے انکے دوست احباب، رشتہ دار شریک ہونے آئے کوئنز میں تعینات پولیس کے محکمہ نے انکے جنازے کی لانگ آئیلنڈ ایکسپریس وے پر رہنمائی کی۔ ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ کوئی700سو افراد سے زیادہ انکے جنازے میں شریک تھے۔ بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین سب ہی ان سے وابستہ اپنی یادوں کو تازہ کر رہے تھے۔ اور محسوس ہوا کہ نیویارک کے پاکستانی حلقوں میں ایک اہم رہنما کی کمی واقع ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اہم مقام دے گا کہ وہ راستہ دکھا گئے۔ ہمارا ان سے تعلق کچھ تو جب وہ مسلم سینٹر بنانے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے فلشنگ میں41ویں ایونیو کے اپارٹمنٹ میں مسجد قائم کرکے اور کچھ تعلقات کی بناء پر کہ ہم1974میں کراچی میں تھے کہ جہاں ہماری شادی ہونا تھی ان کی طرف سے طارق شیروانی صاحب کو پیغام ملا کہ ہمارے بارے میں بتائیں اور جو کچھ بھی انہوں نے کہا ہوگا نتیجہ میں شادی قرار پائی یہ بات انہوں نے واپسی پر بتائی اتنی کم ملاقاتوں پر کسی کے لئے کچھ اچھا کہنا بڑی ہوش مندی کی بات ہے اور شادی کے چالیس سال بعد بھی وہ ہمیں کہتے تھے۔ ”شکر ہے میں نے تمہارے بارے میں صحیح بات کہی تھی” ہم اپنی ذاتیات کو کالم میں لانے سے گریز کرتے ہیں لیکن انکے ساتھ یا ان سے دور رہ کر بھی ہم ان کی اعلیٰ اور بے لوث خدمات کو دیکھتے اور سنتے رہتے تھے۔ ایک خاص بات کہ جب بھی ہم انکے گھر(برینٹ وڈ لانگ آئیلینڈ جاتے تو انکے ایک دو قریبی دوست اور رشتہ دار ہوتے۔ داخل ہوتے ہی کہا جاتا”کامل میاں شروع ہوجائے” وہ چلتے پھرتے ایک اسکول تھے جن سے سیکھا جاسکتا تھا۔ ملنسار ،ہنس مکھ اور کسی کو ناراض نہ کرنے والی شخصیت تھے وہ وہ اسلام کو لے کر چلتے تھے، بنک میں بڑی ملازمت اس لئے چھوڑ دی کہ وہ سود کے نظام سے وابستگی نہیں چاہتے تھے۔ اتنی بڑی شخصیت مالی طور پر بھی مضبوط کہ انہوں نے کوئی عالیشان مکان نہیں لیا وہ زمانہ تھا کہ ایک لاکھ ڈالر میں بہت ہی اچھے علاقے میں بڑا مکان مل سکتا تھا وہ اوپری شان شوکت سے دور تھے کہ ان کے بقول خود پر اتنا بوجھ مت لادو کہ کمر جھک جائے اور خود کو گھبرا ہوا محسوس کرو یہ سبق وہ ہمیں بھی سکھا گئے ،رہنے کے لئے ایک مکان چاہئے جہاں سکون سے زندگی گزاری جاسکے۔
مسلم سینٹر کی بنیاد رکھنے سے بننے تک انہیں جن مراحل سے گزرنا پڑا اور جس طرح انہوں نے اعتراض کھڑا کرنیوالوں کو اپنے ساتھ ملایا اس میں ان کے ساتھی مبین احمد تھے۔ جو سینٹر کے چیئرمین بنے تھے۔ ہم نے جب سے اب تک جو بھی مساجد بنیں انکے بنانے والوں کے درمیان نا چاقیاں دیکھیں لیکن اس سینٹر کے تمام اراکین جن کی تعداد13تھی پڑھے لکھے اور پیشہ ور تھے جو نام کے لئے نہیں کام کے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے سوچ رہے تھے۔ طارق صاحب علی گڑھ کے تھے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہوں نے وہاں تعلیم حاصل کی تھی یا نہیں،85سال کی عمر تک انہوں نے وہ وہ کام کئے اور لوگوں میں جو مقبولیت اور اعتبار قائم کیا وہ کسی اور میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ انکے بعد کے ساتھیوں میں ابراہیم لونت، سید انور حسین، انیس احمد بیگ، سید مبین احمد، شمشیر علی بیگ، سید شاہد علی، محمد حیدر امام، مظفر حسین، مظفر قریشی، کمال احمد خان ممتاز خان اور محمد حسین کا نام آتا ہے۔ جو نیویارک کے پہلے مسلم سینٹر کی انتظامیہ میں تھے۔
ہمیں مسجد کی لوکیشن پر اعتراض تھا مبین احمد صاحب نے جو خزانچی بھی تھے ہم سے کہا کوئی دوسری لوکیشن بتائو ہم نے دوسری کھلی اور پارکنگ کی سہولت کے ساتھ جو جگہ بنائی اس پر انتظامیہ شاید راضی نہ تھی لہذا اسی فلشنگ کی گھری اور تنگ جگہ اور تنگ گلی میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی بنیاد رکھنے والے امام کعبہ تھے۔ اب محلہ کے لوگوں کی مخالفت کا سلسلہ کورٹ تک گیا کام رکا رہا۔ کبھی ٹھیکیداروں کی وجہ سے کبھی مالی کمی کی وجہ سے۔ بالآخر جب اس تعمیر کے لئے مبین احمد صاحب کو چنا گیا جو خود انجینئر تھے۔ تو ہم نے خوشی کا اظہار کیا اور طارق بھائی سے کہا” اب ہمیں یقین ہے مسجد مکمل ہوجائیگی۔ اور مسجد کا افتتاح جلد ہی ہوگیا۔ طارق صاحب جیسے شخص کا ہی کمال تھا کہ مسجد کی انتظامیہ کو بہتر طریقے سے بروئے کار لائیں اور ایسا ہی ہوا، اپنی نرم مزاجی، خوش اخلاقی اور مضبوط کردار کی وجہ سے سب ہی ان کے گرویدہ ہوگئے انہوں نے بہتوں کو نیویارک میں مواقع دلوائے ملازمت سے لے کر دوسرے کاموں کے لئے کہ آج اور آج کے بعدجب بھی کوئی ان کا نام لے گا تو عقیدت سے لے گا۔ وہ قناعت پسندی کی مثال قائم کرگئے اسلام میں اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے کے طریقے بتا گئے کہہ کر نہیں بلکہ عمل کرکے۔
یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ انہوں نے ہماری بچیوں کا نکاح پڑھایا۔ ہم ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت نہ گزار سکے لیکن کبھی بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوا ان سے رہنمائی لی۔ عمر کے آخری حصہ میں انہیں بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا کہ انکی نیک بیٹی فاخرہ عین جواں عمری میں انہیں چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ اور جو کہتے ہیں کہ گھر کی رونق اور شان اور خوشیاں سب عورت کے دم سے ہیں سو ہم نے اس گھر میں نزہت(بیگم) باجی کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید(زبان سے نہیں) پیش ہوتے دیکھا۔ وقت تیزی سے گزر گیا۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے کہ اس مسلم سینٹر کے لئے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا اب گروپ مخالف بنا اور سے پہلے نام پر اعتراض کھڑا کردیا گیا لیکن چونکہ نیت نیک تھی اور یہ کام اللہ اور ہمارے پیغمبر کی خوشنودی کے لئے آنے والے نسلوں کے لئے تھا کامیابی ملی سرخرو ہوئے لوگوں کو انکے ڈائریکٹر ہونے پر بھی اعتراض تھا لیکن یہ سب لکھنے کا موقعہ نہیں۔ تاریخ یہ ہی بتاتی ہے جن لوگوں نے بھی ایسے کاموں کا بیڑہ اٹھایا انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مسجد بنانا آسان ہے اسکے لئے اتنی بھاگ دوڑ”عبدالستار ایدھی نے سینٹر کے لئے مالی امداد کے پروگرام میں کہا تھا۔ درست ہوگا لیکن اپنے اپنے مسالک کو لے کر مخالف اور مسجد کے علاوہ اسے تعلیم گاہ اور ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا آسان نہیں آج یہ سینٹر آٹھویں کلاس تک کا اسکول ہے۔ ضرورت مند حضرات کی مالی امداد بھی کرتا ہے۔ قرت قرآں کے مقابلے کراتا ہے۔ اور حفظ قرآن کی کلاسیں بھی لگاتا ہے۔ یہاں سے نکلے طلباء آج دوسری مساجد کے منتظم ہیں اور ان سب کی کامیابی کا سہرہ طارق شیروانی اور ان کے دوستوں کے علاوہ مولانا یوسف کو بھی جاتا ہے یہ بھی حدیث ہے کہ اچھے اعمال والے ہی اچھے کام کرتے ہیں۔ اور اللہ انہیں توفیق اور کام میں برکت دیتا ہے۔
آج48سال ہونے کو آئے اور مسلم سینٹر فلشنگ کامیابی اور مقبولیت کے اگلے مراحل طے کررہا ہے۔ ساتھ ہی ہم یہ باور کراتے چلیں کہ ہر چند مسلم سینٹر کا آغاز سب سے پہلے ہوا تھا۔ لیکن ویسٹ بری لانگ آئیلینڈ میں اسلامک سینٹر کو یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے اس مسجد کا آغاز پہلے کیا اس کی وجہ شاید وہاں کے ڈاکٹروں کی مالی اعانت تھی۔ ہم یہ سب اپنی یادداشت کے تحت لکھ رہے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمیں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہم کیا کچھ جانتے ہیں اور یہ بھی کہ ہم نے نیویارک کی کسی شخصیت(اسلامی) کے متعلق نہیں لکھا اس لئے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر اپنا کالم نہیں لکھتے لیکن چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جو اردو پڑھنا جانتے ہیں ہر چیز کو پڑھیں۔ ہمارا کہنا ہے ہر کسی سے ملو، گفتگو کرو، جان پہچان بڑھائو طارق شیروانی بھائی ہمیں دو مختصر حد پیش بتا گئے ہیں ”اپنے بھائیوں سے ملتے جلتے رہو” اور ”آپس میں لینا دینا کرو” اگر بات دل کو لگے تو عمل کیجئے اور اگر مصروفیت ہے تو اکیلے وہ کر زندگی گزاریئے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here