سیاست کے نئے موڑ!!!

0
13

الحمد اللہ میں ہفتہ کی شام بخیر و عافیت شکاگو پہنچ گیا ہوں، احباب اور کرم فرمائوں کے خیر مقدم پر مشکور وممنون ہوں۔ پاکستان میں انتخابی تماشے اور اس کے مابعد اثرات سے ہر ہفتہ اپنے کالموں کے توسط سے آگاہی بھی دیتا رہا اور ایسا لگتا ہے کہ میرے گذشتہ کالموں میں میرے تجزیوں اور تبصروں کی طرح آئندہ بھی میری پیش بینی میرے صحافتی و سیاسی تجربے و مشاہدے کے بموجب حالات وطن عزیز کو اس سمت میں ہی لے کر جا رہے ہیں جہاں سیاسی استحکام کے برعکس اصل فیصلہ سازوں کی منشاء و مقصد کے مطابق صورتحال ان کی مرضی و ہدایات بلکہ احکامات کے تحت سامنے آئے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں عوام اور عمران خان کے حوالے سے فتحیاب ہونے کے حوالے سے انقلابی تبدیلی کی بات کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ جیتنے والے بھی اپنے کامیابی کے نتیجے کو دھاندلی قرار دے رہے ہیں اور شکست سے دوچار ہونیوالے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو فتح مند ٹھہرا رہے ہیں۔ بات یہاں تک ہی نہیں رہی ہے کراچی سے خیبر تک سیاسی و عوامی احتجاج کا ایک تسلسل ہے، جیتے ہوئے آزاد امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرائی جانے پر عمل کروا کے وفاق میں ن لیگ کی نشستیں بڑھانے کا مکروہانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ کسی بھی طرح پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر رکھا جائے، مگر شاید ان طالع آزمائوں کو یہ بات بھول گئی ہے کہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے!
عوام، سیاسی تجزیہ کاروں اور رہنمائوں کا انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج اور تحفظات تو اپنی جگہ اب تو حکومتی کار پرداز و ذمہ دار بھی انتخابی نتائج میں دھاندلیوں کا انکشاف کر رہے ہیں۔ کمشنر روالپنڈی لیاقت علی چٹھہ کا اعتراف کہ تیرہ حلقوں میں جو امیدوار 70 ہزار ووٹوں سے ہار رہے تھے انہیں جعلی ووٹ ڈال کر جتوایا گیا ہے، انتخابی نتائج کی شفافیت کیخلاف بہت بڑا ثبوت ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا راولپنڈی سے ن لیگ کے تینوں کامیاب امیدواروں کے نتائج معطل کر کے الیکشن کمیشن کوتحقیقات کا حکم بھی دھاندلی کے مؤقف کی تائید ہی ہے۔ یہ معاملہ یوں بھی اور واضح ہوتا ہے کہ الیکشن کے دس دن بعد ایک صحافی نے لاہور کے نجی پرنٹنگ پریس میں مانسہرہ کے انتخابی حلقہ کے (جہاں سے نواز شریف کو شکست ہوئی) کے بیلٹ پیپر چھپتے ہوئے پکڑے، دھاندلی اور آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے ان حقائق کیساتھ دوسری جانب پی ٹی آئی حمایت یافتہ کامیاب افراد پر دھونس دھاندلیوں اور اُٹھائے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق بریگیڈیئر اور عمران حمایت یافتہ رکن اسمبلی علی خان کے سپریم کورٹ میں حالیہ انتخابات کی معطلی کے محرک کو غائب کر دیا جانا، فیصل جاوید کی روپوشی اور منظر نامے پر وپس آکر راہداری ملنا ظاہر کرتا ہے کہ عمران کے کامیاب اور معتمد لوگوں کو پی ٹی آئی کے وفاق میں 116 اراکین کی موجودگی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اپنے اہداف کی تکمیل کیلئے ہر وہ اقدام کرنا چاہتی ہے جو عوام کے مفاد میں ہو یا نہ ہو ان کے اپنے مفاد میں ہو۔
الیکشن کے بعد تا دم تحریر حکومت سازی کے حوالے سے جو حالات تاحال سامنے آرہے ہیں، جس طرح ہر شہر، ہر صوبے میں احتجاجی مظاہرے بوجوہ آرہے ہیں، سندھ میں پی ٹی آئی و جی ڈی اے سراپا احتجاج ہیں تو بلوچستان میں قوم پرستوں کی ہڑتالیں اور شہروں، شاہراہوں کی بندش اور پنجاب میں جعلی کامیابی کے باوجود خوفزدگی کے باوجود ن لیگ کی پی ٹی آئی سے خوفزدگی کے باعث ہمیں تو واضح نظر آرہا ہے کہ کہانی میں وہ موڑ آرہا ہے جس میں اول تو جمہوریت کے لبادے میں وہ کھیل کھیلا جائے جو مقتدرہ کے ماتحت اور مرضی و منشاء کے مطابق ہو۔ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان خصوصاً ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان وفاق کیلئے کوئی سمجھوتہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، البتہ ایم کیو ایم ن لیگ کو سپورٹ کرنے اور اتحاد کرنے پر راضی ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم کی سترہ نشستوں کے باوجود اس کیخلاف پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے احتجاج اور پٹیشنوں کے سبب دھاندلیوں کا الزام متذکرہ اتحاد ہوتا نظر نہیں آتا ہے، ہمارے قریبی دوست اور سابقہ سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق ایم کیو ایم کے کسی بھی امیدوار کو پانچ ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں ملے، مقتدرین کے حکم کے مطابق انہیں دھاندلی سے جتوایا گیا۔ دوسری جانب لاہور میں ذاتی نشست میں میرے ن لیگی دوست بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں کہ حقیقتاً ن لیگ نے پاکستان بھر میں صرف 23 نشستیں جیتی تھیں، باقی نشستیں مقتدرہ کی مہربانی سے ملی ہیں۔
ان تمام حالات کے پیش نظر خصوصاً پیر صاحب پگاڑا کے احتجاجی اجتماع میں ملک میں موجودہ حالات کے باعث ایمر جنسی یا مارشل لاء کے نفاذ کا خدشہ بعید از قیاس نہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں پارلیمان کا اجلاس 29 فروری تک لازمی ہونا ہے اور اس وقت ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی و دیگر کے درمیان جو مشروط و حصول اقتدار کی دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے، دوسری جانب پی ٹی آئی کی وفاق، کے پی، پنجاب میں اکثریت مقتدرہ سے کسی طرح بھی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں پارلیمان کا اجلاس اول تو ہوتا ہوا مشکل نظر آتا ہے اور اگر مارے باندھے کوئی حکومت بن بھی جاتی ہے تو اس کے لئے عمران سپورٹڈ آزاد اراکین کی مضبوط اپوزیشن حکومت کے حلق کی ہڈی بنی رہے گی جو مقتدرین کو ہر گز گوارہ نہیں ہوگا اور اگر پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کے نتیجے میں اقتدار پی ٹی آئی کے حصہ میں آتا ہے تو ہرگز مقتدرین کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ ہم کہانی کو ایک نیا موڑ لیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے مبینہ غیر معمولی اور عدالتی کارروائیوں، تحقیقات کی طوالت کو وجہ بنا کر موجودہ نگران حکومتوں کے تسلسل اور چھ ماہ کی ایمر جنسی کے نفاذ کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ن لیگ کے بیشتر لیڈر تو اس مؤقف پر نظر آتے ہیں کہ وفاق کا خیال چھوڑ کر پنجاب میں اپنے قدم جمائے جائیں لیکن پی ٹی آئی کے ہوتے ہوئے کیا یہ ممکن ہے؟ الغرض موجودہ صورتحال اس قدر اُلجھی ہوئی ہے کہ جس کے سبب سیاسی استحکام کی کوئی صورت واضح نہیں۔ ہمارے اس کالم کے لکھے جانے تک(ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان مسلسل اجلاسوں کے بعد آصف علی زرداری کو صدر اور شہبازشریف کو وزیراعظم بنائے جانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اور پریس کانفرنس میں اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ لیکن اغراض پر مبنی یہ اتحاد چل سکے گا؟ دوسری بات یہ کہ فیصلہ ساز زرداری کو بطور صدر قبول کر لے گئے۔ یا سیاست کے کھیل میں نئے نئے موڑ آتے رہیں گے۔ آگے آگے دیکھیںہوتا ہے کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here