پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ایسے موڑ پر آپہنچا ہے جہاں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں، ایک جانب قائد عمران خان نے 24 نومبر کو فائنل احتجاج کا اعلان کر دیا ہے تو دوسری جانب اصل حکمرانوں نے سخت ترین اقدامات کی دھمکی دیدی ہے۔ ہمارا یہ کالم جس روز قارئین تک پہنچے گا رزم حق و باطل کے فائنل مرحلے میںمحض تین روز باقی ہونگے۔ اب تک کے حالات اس امر کی نشاندہی کرر ہے ہیں کہ حالات میں مزید ابتری پیش آئیگی۔ بشریٰ بی بی کا عمران خان کے پیغام مارو یا مر جائو کا پارٹی رہنمائوں کو صراحت سے بیان کرنے اور الجہاد کی ترغیب نے کپتان کے چاہنے والوں میں نامور شاعر ظہور نظر کی زبان میں ”ہتھیلیوں پہ لئے اپنے سر گئے ہیں لوگ” کا جذبہ پیدا کر دیا ہے اور امکان یہی نظر آتا ہے کہ ملک بھر سے لوگ عمران خان کی حمایت و رہائی کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اور پالتو حکومت کے ارادے اور دعوے بھی خطرناک اور ظلم و بربریت کا مظہر نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمران کی رہائی اور حقیقی جمہوریت و آزادی کیلئے عوام لاکھوں کی تعداد میں صف آراء ہو گئے تو کیا ملک و عوام کے محافظین اور غیر نمائندہ حکومت کو اپنے ہی لوگوں پر آہن و آتش اور ظلم و تشدد زیب دیگا اور کیا ایسے اقدامات سے نہ صرف وطن عزیز کی سلامتی کو نقصان پہنچنے کیساتھ دنیا بھر میں بدنامی نہیں ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کی تضحیک، آئین کے خلاف اور انسانی حقوق کی پامالی کے سبب آج بھی عالمی قوتوں اور اداروں کے تحفظات ہیں، برطانوی وزیر خارجہ اور مزید 60 امریکی نمائندگان کی قرارداد اس حقیقت کی تازہ مثال ہے۔ مقتدرہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار کی عمران سے ذاتی پرخاش ڈھائی برس کے عرصے میں حالات کو اس سطح پر لے آئی ہے جہاں اپنی فوج سے محبت کرنے والے عوام کے دلوںمیں نفرت جاگزیں نظر آتی ہے، اس حقیقت کا فائدہ وطن کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو ہو رہا ہے اور ان دشمنوں کیخلاف عمل پیرا دیس کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیٹے شہادت کا جام پی رہے ہیں لیکن مقتدرہ کے چند فیصلہ سازوں کے اقدامات و ایجنڈے کے سبب نہ صرف یہ قربانیاں بے اثر ہو رہی ہیں بلکہ عوام میں بھی ادارے کیلئے منفی رحجان پایا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا عوام کے حق جمہوریت و رائے دہندگی کی تکفیر اور حقیقی نمائندگی کو جھٹلا کر غیر نمائندہ ٹائوٹس کی حکومت کے ذریعے ملک کے نظام و استحکام کو حقیقی طور پر چلایا جا سکتا ہے، ہرگز نہیں حالات بگڑتے ہی ہیں اور اس کی واضح صورت وطن عزیز کے موجودہ حالات ہیں جہاں سیاسی، معاشی،معاشرتی عدم استحکام کا بھونچال ہے۔ عوام کا زندگی گزارنا محال ہو چکا ہے اور امن و امان کی بدتری سکہ رائج الوقت ہے۔ افسوس کہ یہ حالات صرف اور صرف عمران دشمنی میں ہیں۔ ہم نے سطور بالا میں محافظین ملک و عوام کا ذکر کیا ہے، ملکی سالمیت اور عوام کا تحفظ کرنے والے ہی اپنے مفاد کے تحت اگر منفی رویوں و ایجنڈے پر عمل پیرا ہو جائیں تو اثرات انتشار و انارکی کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ 24 نومبر کا احتجاج اسی حقیقت کا مظہر ہے کہ قید و بند، غیر جمہوری انسانی حقوق کی پامالی اور انصاف کا کھلواڑ برداشت سے باہر ہو چکا ہے، اب یہ معاملہ مقامی ہی نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی معاملہ پر تحفظات کا اظہار تشویش و فکر کی وسعت ہے۔ مثل مشہور ہے کہ حد سے زیادہ ظلم پر چیونٹی بھی ہاتھی کی سونڈ میں گُھس کر اسے ختم کر دیتی ہے۔ چوبیس نومبر کو الجہاد کی کال بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھی کیخلاف دی گئی ہے، فرق یہ ہے کہ یہ کال عوام کے مقبول ترین و محبوب قائد کی رہائی اور غیر جمہوری و غیر آئینی نظام کیخلاف ہے۔ اس احتجاج کو روکنے اور ناکام بنانے کیلئے مقتدرہ اور اس کی پالتو حکومت کے جو ارادے و اعلانات سامنے آرہے ہیں ہمارے خدشات ہیں کہ نو مئی کا سیکوئیل وقوع پذیر نہ ہو۔ خدانخواستہ اگر لاکھوں افراد، خواتین، بزرگوں اور بچوں کی شرکت (جو یقینی نظر آتا ہے) کی موجودگی میں جبر و استبداد اور محاذ آرائی کی گئی اور خاکم بدھن ہلاکتیں و مضروبیات ہوئیں تو سوائے قیامت صغریٰ کے اور کوئی متوقع صورتحال نہیں ہوگی۔ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری سربراہ مقتدرہ سے بصد ادب گذارش ہے کہ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے آنے والی تباہی سے گریز کیا جائے اور عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے عوام کے حقیقی رہنما کو اعتماد میں لیا جائے اور وطن و عوام کو حقیقی و جمہوری آزادی کا تحفہ دیا جائے۔ حالیہ غیر مقبول اور مانگے تانگے کی حکومت تو اپنا اقتدار قائم رکھنے کی غرض سے بہر طور یہی چاہے گی کہ ملک میں انتشار و افتراق کا تسلسل رہے کیونکہ اسی میں اس کی بقاء ہے، حالات کی بہتری شریفوں، زرداریوں جیسے نوسر بازوں کی سیاسی فنائ، عوام کے حقیقی قائد کی فتح اور عوام کی آزادی و خوشحالی کی ضمانت ہے۔
٭٭٭