لگے گی آگ تو گھر کئی آئیں گے زد میں
یہاں پے صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
نبیوں کی سرزمین۔ قبلہ اول ۔ ارض مقدس لہو لہو۔ اسرائیلی بربرئیت۔ عالمی ضمیر مردہ۔ مسلمانوں کی غیرت مرچکی ۔ قبلہ اول کی سرزمین کربلا کی تصویر۔ فلسطینی قوم نوحہ کناں ۔
فلسطین پکار رہا ہے کہ آ ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کرو،آو ناحق قتل عام پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں۔آو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں۔ملبہ کے ڈھیر میں پڑی لاشیں ۔ کھنڈرات کے ڈھیر عمارتیں۔ سوال کرتیں ہیں کہ امت مسلمہ کہاں ھے۔؟ جہاں ھم پہلے کھڑے تھے۔ آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔اسرائیلی خاتون وزیراعظم گولڈا مئیر کا 1967 میں دیا گیا بیان کہ جب ھم نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگائی تو میں ساری رات اس خوف سے سو نہیں سکی تھی کہ عرب فوجیں چاروں طرف سے اسرائیل میں داخل ھونگی مگر جب اگلی صبح طلوع ھوئی تو مجھے سمجھ آگئی کہ ھمیں ایک ایسی مسلمان قوم کا سامنا ھے جو سو رہی ھے ۔ھم جو چاہیں کرسکتے ہیں ۔
امت مسلمہ کی مظلوم قوم، یہ بیٹیاں یہ مائیں یہی فریاد کرتی ہیں ۔ کہ فلسطین کا نوحہ لکھو ۔
وہ کہتی ہیں کہ اے مسلمان حکمرانو ! تم کچھ کر نہیں سکتے تو ہمارے دکھ کاغذوں پر تحریر تو کر دو ۔ غلط کو غلط کہو اور مظلوم کے حامی بنو کیونکہ سب سے بڑا جہاد ظالم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے اور مظلوم کا حمایتی ہی حقیقی جنتی ہے ۔کیا مسلمانوں کے حصہ میں مظلوم فلسطینیوں کے لئے کلمہ حق کہنا بھی لکھا ہے یا نہیں۔؟ یورپ اور امریکہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کے شریک۔ عالمی دہشت گرد ۔گزشتہ ستر سال سے چھوٹا سا اسرائیل ۔عالم عرب کی غیرت کو ملیامیٹ کررہا ھے۔ غیرت مسلم مردہ ھوچکی۔ بزدل مسلم حکمران فلسطینوں کے قتل عام پر خاموش۔ تیل گیس اور سونے کی دولت سے مالا مال۔ عرب ممالک فلسطینوں قاتلوں سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہوئے۔ فلسطینی لاوارث ۔ اسرائیلی مظالم سے فلسطینی تاریخ کے اوراق سرخ ۔ہر طرف موت کا راج ھے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ‘یو این ویمن’ کی نمائندہ میرس گوئمنڈ نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگ اسرائیل کی جانب سے دیے گئے انخلا کے احکامات پر کان نہیں دھریں گے کیونکہ ان کے لیے کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں جہاں وہ پناہ لے سکیں۔ یہ ان کے لیے اپنی اور اپنے خاندانوں کی بقا کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں مقیم ایک خاتون نے انہیں بتایا کہ ان کی والدہ کہتی ہیں خطروں کے باوجود وہ غزہ شہر میں اپنے علاقے کی جانب واپس جانا چاہتے ہیں کیونکہ کوئی کہیں بھی رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہر جانب موت کا ہی راج ہے۔مقبوضہ مغربی علاقے میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن کا کہنا ہے کہ امداد کی فراہمی بند ہونے کے باعث علاقے میں طبی حالات مخدوش ہیں۔ ادویات سمیت ضروری سازوسامان کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور محفوظ زچگی کے لیے درکار سازوسامان بہت جلد ختم ہو جائے گا جبکہ ایندھن کی قلت کے باعث درجن بھر ایمبولینس گاڑیاں بھی غیرفعال ہو گئی ہیں،بنیادی اصولوں کی پامالی کی جارہی ھے۔ جینز لائرکے نیکہا ہے کہ فلسطینی لوگوں کو اجتماعی سزا دینے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی قانون اندھا دھند حملوں، امداد کی فراہمی روکنے، شہریوں کی بقا کے لیے ضروری تنصیبات کو تباہ کرنے اور لوگوں کو یرغمال بنانے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے انسداد نسل کشی کنونشن کے اطلاق سے متعلق جاری کردہ عبوری احکامات اپنی جگہ موجود ہیں۔ تاہم، غزہ میں انسانیت کے انتہائی بنیادی اصولوں کے احترام کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔گزشتہ روز بھی غزہ کی وزارت صحت نے 24 گھنٹوں میں 41 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ غزہ میں 18مارچ سیدوبارہ شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں شہیدفلسطینیوں کی تعدادایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔اس کے علاوہ غز ہ میں گزشتہ سال سے سیاب تک اسرائیلی حملوں میں 55ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ایک ہزار بچے بھی شہید ھوچکے ہیں۔
اسرائیلی ظلم و بربرئیت پر عالمی برادری خاموش تو ہے ہی ۔لیکن مسلم ممالک بھی خاموش ہیں۔انہیں رسول خدا کا فرمان یاد نہیں کہ مسلمان جسد واحد کیطرح ہیں ۔لیکن آج ھم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔کسی دوست نے ایک پوسٹ لگائی جس میں ایک کتا اسرائیلی بمباری کے بعد ملبہ کے ڈھیر سے چھ ماہ کے فلسطینی بچے کو اٹھا کر محفوظ مقام پر پہنچا رہا ہے۔ ایک جانور میں اتنی سینس ھے ۔تو مسلمانوں کی انسانیت کہاں مر گئی ھے۔ ستاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے غزہ کا وہ کتا بہتر ھے ۔جو تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے چھ ماہ کے معصوم بچے کو اٹھا کر مخفوظ جگہ پر پہنچاتا ھے۔ اس کتے میں انسانوں سے زیادہ ان مظلوموں سے ہمدردی ھے ۔ آہ افسوس ! ھمارا ضمیر مر چکا ھے۔ ھم اتنے بزدل کیوں ہو چکے ہیں۔ ھماری غیرت کیوں سو چکی ھے۔؟
کسی دوست نے مسلم امہ سے بہت دکھی دل سے کہا۔
اے عربیو ترکیو عراقیو ایرانیو ۔ اور سدا بہار ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاکستانی نوکرو ،تم نیند سے بیدار نہ ھوئے تو ، تمہاری باری عنقریب ہے !وہ آپ کے پیچھے بھی آئیں گے !
بھلے آپ امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں یا 1.4 ٹریلین ڈالر کی، کاروبار کریں، بیوپار کریں یا فلسطینی خون کی دلالی، وہ آپ کے پیچھے بھی آئیں گے !
گزشتہ روز اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں فلسطینی بچے دھماکوں سے یوں ہوا میں اڑا رہے ہیں جیسے چنگیز خان کے سپاہی نیزوں پر اچھالتے تھے، آنے والے کل میں وہ یوں ہی آپ کے بچے اچھالیں گے۔آپ کی باری کا آنا ٹھہر چکا،بس تھوڑا انتظار کریں!وہ فلسطین کا کام تمام کر چکے، اب لبنان، شام، یمن اور عراق کے درپے ہیں،ان سے فارغ ہو کر وہ مصر، اُردن اور ترکی کا انتظام کریں گے اور پھر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور شمالی افریقہ کے مسلمان ملکوں کی جانب پھریں گے کہ ان سب علاقوں پر “گریٹر اسرائیل” کا پھریرا لہرائیں،اپنی بے حسی کی جو بھی دلیل گھڑیں لیکن یہ طے ہے کہ وہ آپ کو لینے بھی آئیں گے ! آج فلسطینی بچوں کی چیخوں اور ماں کی آہ وزاری کو سننے والا کوئی نہیں، کل آپ کی آہ و بکا پر کان دھرنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا،بس اپنی باری کا انتظار کریں !
عرب حکمرانو یاد رکھیں۔ فلسطینوں کی آہ کہتی ھے کہ خاموش رہنے والو اپنی باری کا انتظار کرو۔
فلسطین میں آگ لگی ھے ناحق خون بہہہ رہا ھے۔اس پر خاموشی سب کو راکھ کردے گی۔ اے تماشبین عربیو !۔ اس آگ کی لپیٹ میں آپ بھی آئینگے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ۔ پڑوس میں لگی آگ پر خاموش رہنے والے بھی اسی آگ میں جھلس کر مرتے ہیں۔فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور غزہ کی تباہی کے خلاف عالمی برادری کی خاموشی قابل مذمت ہے، جبکہ اسلامی ممالک کی جانب سے عملی اقدامات نہ اٹھانے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے مسلسل بمباری اور زمینی حملوں نے غزہ کو مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہری، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، مارے جا چکے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
غزہ کی ایک فلسطینی بچی نے نے لکھا۔اب صرف تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ ھم سب ختم ھوجائیں گے۔ اللہ اسے معاف نہ کرئے۔جو اس ظلم پر خاموش رہا۔اسرائیلی جارحیت پر عالمی ردعمل نہ آنے سے انکے انسانی حقوق کی قلعی کھل گئی ھے۔جانوروں کے حقوق کی بات کرنے والے مسلم انسانیت کے قتل پر خاموش کیوں ہیں۔ ؟
غزہ میں بم دھماکوں میں اڑتے انسانی لاشے دیکھ کر بھی دنیا خاموش ہے۔ کیا یہی انسانی حقوق ہیں؟ کیا یہی جمہوریت کا چہرہ ہے انہوں نے سوال اٹھایا کہ اسلامی ممالک کے پاس میزائل، طیارے اور جدید افواج ہیں، مگر یہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کیوں نہیں کر رہے۔افغانستان میں بگرام ائیر بیس کو حاصل کرنے کی تیاری ہے۔ تاکہ ایران، پاکستان اور چین کو کنٹرول کیاجاسکے۔آج پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے بھارت اور عالمی طاقتیں متحرک ھیں۔ امریکہ نے طالبان سے بگرام ائیر بیس مانگ لیا ھے۔ طالبان کا کہنا ھے کہ امریکی ھمارے بھائی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ھوتا کہ کیا امریکہ نے لاکھوں طالبان بھائی چارے میں مارے تھے۔ ؟ طالبان بیس سال اپنی بھائیوں سے لڑتے رہے؟
امریکہ کا ایران سے جوہری اثاثوں کو ختم کرنے کے حوالہ سے ایران نے ترپ کا پتہ پھینک کر پوری دنیا کو حیران کر دیا ھے۔ایران نے کہا ھے کہ ھم ڈیل کرنے کو تیار ہیں۔اگر اسرائیل سے ایٹمی ہتھیار واپس لئے جائیں۔ تو ایران بھی اپنے ہتھیار Give up کرنے کو تیار ھے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایران کا موقف ہمیشہ جرتمندانہ رہا ھے۔اسلئے اسکی پشت پر روس اور چین کھڑے ہیں۔ انہیں معلوم ھے کہ ایران
شروع سے آج تک اپنی جگہ پر کھڑا ھے۔مسلم اُمہ کا المیہ رہا ھے کہ ھم عراق،لبیا، شام،افغانستان اور فلسطین میں خاموش تماشائی بنے رہے ۔ ایک ایک کر کے مسلم ممالک کو تباہ کیا جارہا ھے۔مت بھولیے آج ان کی ، اورکل ھماری باری ہے۔
٭٭٭