نفرت نہ بنے باعث انکار مرے دوست!!!

0
103

جب میں نے پاکستان کے گرم موسموں سے آکر، امریکہ کے دوسرے بڑے شہر شکاگو کی انتہائی ٹھنڈی ہوائوں میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو بھارت سے آئے ہوئے بہت سارے ہندوئوں سے واسطہ پڑا۔ پاکستان اور بھارت کی ریاستی دشمنی نے وہاں کے شہریوں کے اندر بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو ایمان کا حصہ بنا دیا تھا۔ دونوں ممالک میں، بدقسمتی سے آج بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔ شکاگو میں پہلے پہل تو مجھے ہر ہندو، اپنا ازلی دشمن ہی نظر آتا تھا لیکن آہستہ آہستہ جب ان کے ساتھ باہمی تعلقات بنے تو محسوس ہوا کہ وہ بھی ہمارے جیسے عام انسان ہی ہیں۔ رحمان فارس کے بقول،
چلو مل کر لڑیں ہم تم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے ادھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
بھارتی ریاست کے ظلم و تشدد کے پسِ منظر میں، اپنے اپارٹمنٹ میں، پہلے میں نے ایک انڈین مسلم طالب علم کو اپنا روم میٹ بنایا پھر کچھ عرصے بعد ڈھاکہ سے آئے ہوئے ایک طالب علم کو بھی اپنے اپارٹمنٹ میں جگہ دی تاکہ بنگالیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی تھیں، ان کا کچھ ازالہ ہو سکے۔ اس مشترکہ رہائش کے دوران مجھے احساس ہوا کہ لوگ تو لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اچھے بھی اور برُے بھی۔ پنجاب اور بنگال والی مخاصمت کے باوجود، ایک دن میرے بنگالی ساتھی نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے خطوط مجھے لاکر دئیے جو انہوں نے بڑی محبت اور پیار سے میرے نام لکھے تھے۔ ان کا مقصد میرا شکریہ ادا کرنا تھا کہ دیارِ غیر میں، میں نے ایک پنجاب مخالف بنگالی کا بڑا خیال رکھا ہوا تھا۔ ان کی تحریروں سے شکریہ کے آنسو ٹپکتے ہوئے دیکھے جاسکتے تھے۔ اسی طرح، حیدرآباد دکن کے رہنے والے، احمد کا پورا خاندان بھی ہمیشہ مجھے دعائیں دیتا رہا۔ ان دونوں روم میٹس نے مجھے ہندوئوں کے بارے میں بھی یہی بتایا کہ ان کے کئی خاندانوں سے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ البتہ ریاستی ظلم و جبر اپنی جگہ موجود ہے۔ احمد فراز کے یہ اشعار اس کیفیت پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
تمہارے آئنہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خد و خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
اپنی تعلیم کے دوران جب ہندو اساتذہ سے واسطہ پڑا تو پہلے تو بہت گھبرایا لیکن آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کے اچھے برُے دونوں طرح کے ہندو اساتذہ بھی موجود ہیں۔ صرف ہندو ہونے سے وہ برُے نہیں ہو سکتے۔ اس کے باوجود میں ہمیشہ ہندو اساتذہ سے دور رہنے کا اہتمام ہی کرتا رہا البتہ سماجی اجتماعات میں ہندوئوں کے ساتھ بھی ملنا ملانا شروع ہوگیا۔ کرکٹ اور سیاست کے موضوعات پر اکثر کشیدگی بھی ہو جاتی تھی لیکن اب پہلے جیسی نفرت بھی نہیں رہی تھی۔ کبھی کبھی، ان کے ساتھ، احمد فراز کے ان اشعار والا مکالمہ بھی ہوجاتا تھا۔
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمہیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب ایک ریسرچ لیبارٹری میں کام شروع کیا تو ہندو پروفیشنل افراد سے تعلقات میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ اندازہ ہوا کہ شمالی اور جنوبی ہند کے لوگوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح گجراتی ہندوں کی تہذیب و تمدن بھی بیحد مختلف ہے۔ بھارت کا ہر رہائشی متعصب نہیں اور کچھ تو آج بھی مسلمانوں کو آقا کہتے ہیں۔ ہندوتا کا نظریہ رکھنے والے، نفرتوں میں ڈوبے ہندوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں۔ البتہ مسلمان و پاکستان دشمنی کو بنیاد بنا کر انتخابات میں عام لوگوں سے ووٹ لے لینا اتنا مشکل نہیں۔ مدراس کے ایک ہندو دوست نے ایک مرتبہ مجھے اس وقت لاجواب کردیا جب ہندو مت سے مسلمان ہونے والے کچھ لوگوں پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کہنے لگا، مسلمان حکمرانوں نے ایک طویل عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی لیکن وہاں کے عام ہندوں تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچائی اور انہیں ہمیشہ اپنے سے نیچی ذات کا تصور کیا۔ اب جب وہی کم ذات والے ہندو حکمران بن چکے ہیں تو مسلمانوں کو دعو کا کام یاد آگیا ہے۔ احمد فراز نے کیا نقشہ کھینچا ہے۔
ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
تو اب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب
تمہارے پاں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے
نہ جیت جیت تمہاری نہ ہار ہار مری
نہ کوئی ساتھ تمہارے نہ کوئی ساتھ مرے
آج ایک مرتبہ پھر پاکستان و بھارت کی فوجیں محاذِ جنگ پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ یہ جنگیں، اشرافیہ کے کچھ افراد کی سیاسی ضروریات تو پوری کردیتی ہیں لیکن عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اس وقت بھی خواتین و بچوں سمیت، معاشرے کے کمزور لوگ اس جنگ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ امن و آشتی کا دور، دوبارہ جلد واپس آئے اور نفرتیں ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں۔ اختتام بھی احمد فراز کی اسی نظم کے ساتھ کہ،
ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
چراغ جن سے محبت کی روشنی پھیلے
چراغ جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں
چراغ جن سے ضیا امن و آشتی کی ملے
چراغ جن سے دیئے بے شمار روشن ہوں
تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here