”جب آپ کہیں جاتے ہیں تو اردگرد دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور پھر دل چاہتا ہے کہ یہ جو کچھ دیکھا ہے دوسروں تک پہنچائیں۔ ”بشیر قمر کے لئے ایسا کہنا ہے کہ وہ عرصے سے نیویارک میں طلاطم بپا کئے ہوئے ہیں۔ ہم ان کے قریب نہیں لیکن دیکھتے رہے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں دوسروں کو فیض ملتا ہے لکھاری تو وہ ہیں ہی ساتھ میں اچھے منتظم بھی ہیں وہ پہلے ہندوستان جاکر بہت کچھ لائے کتابی شکل دی اور پڑھنے والوں نے دلچسپی سے پڑھا۔ ایک سادے انداز بیان میں انہوں نے بہت دلچسپ انداز سے لکھا۔ یوں کہیں کہ پبلسٹی مل گئی کہ جب وہ فلسطین گئے تو انتظار رہا کہ کب کتابی شکل میں وہ سیاح نامہ آئے تو وہ ”ارض مقدس فلسطین” کے نام سے آیا لوگوں کا اشتیاق بڑھا اور اس کتاب کے اجراء سے ایک بار پھر کتاب کو زندگی مل گئی جب میڈیا کے بوجھ تلے دب رہی تھی۔ کہ سب کچھ سوشل میڈیا پر مل جاتا ہے۔ لیکن تحریر میں آئے جزبات تاریخ اور انداز فکر کم ملتا ہے ایک لکھاری میں چاہے وہ ناول لکھے یا سفر نامہ پڑھنے والے کو جو ملنا چاہئے وہ ہے۔ بشیر قمر کے اس سفر نامے یا مذہب کی تاریخ نے دلچسپ انداز میں پڑھنے والوں کو جو معلومات ترتیب سے دی ہیں وہ نہایت معلوماتی ہیں بہت لوگوں کو یا تو یادنہیں یا پھر بھول چکے ہیں آج کل کی زندگی کے گردوغبار میں۔ اُن کی کتاب ارض مقدس کا اجراء پچھلی جمعرات29مئی کو تھا۔ اس کی تفصیل سوشل میڈیا پر دیکھ کر پچھتاوہ نہیں ہوا کہ ہم شریک نہ ہوسکے بوجہ اپنی بیماری کے بلکہ ہمارے لئے بہتر تھا کہ خاموشی سے سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھائیں کہتے چلیں اس پروگرام کو دیکھ کر پتہ چلا کہ امریکہ میں اردو کے لکھنے اور بولنے والے لوگوں کو بڑی اچھی ترتیب سے جمع کیا تھا۔ جو بشیر قمر کا خاصا ہے۔ اوپر کی تحریر میں جو ہم نے لکھا ہے کہ سیاحت کرنے والے کا دل چاہتا ہے کہ وہ لکھے بشیر قمر کے لئے یہ بے حد آسان تھا لیکن جس ترتیب سے وہ آگے بڑھے ہیں یہ انکا کمال ہے۔ ہم نے سفرنامہ نہیں پڑھا لیکن جن لوگوں نے پوڈیم پرآکر جو کچھ کتاب اور بشیر قمر کے بارے میں کہا وہ دلچسپ اور سننے کے قابل تھا جس کی ہم داد دیتے ہیں۔ ایک اور اہم بات بتاتے چلیں اچھے پروگرام کی کامیابی ناظم کے حصے ہوتی ہے اس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وقت کے تیئں پروگرام ہو۔ اور جب پڑھنے والے اس بڑی تعداد میں ہوں تو یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے جس کے لئے ہم ڈاکٹر ثروت رضوی کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتے۔ جنہوں نے بڑی ہی خوبصورتی سے پروگرام کو آگے بڑھایا ایسا کم ہی دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ لوگ مشہور ناظم طاہر خان کو بھول جائیں۔ ڈاکٹر ثروت رضوی نے خوبصورت اور مختصر انداز میں پڑھنے والوں کو مدعو کیا تھا ہم انہیں سراہتے ہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اردو کی گوہر نمایاں ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ ناظم کی کیا اہمیت ہے یہ تو کتاب کا اجراء تھا لیکن مشاعروں میں ناظم کے کاندھے پر اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ مشاعروں کی ترتیب غلط نہ ہو۔بات کتاب کے اجراء کی ہو رہی تھی۔ اور یہ جان کر حیرت بھی ہوئی کہ دیر نظر کتاب، حلقہ ارباب ذوق نیوجرسی کے عامر بیگ جو ایک کالمیٹ، افسانہ نگار اور شاعر ہیں واقعی ہر فن مولا ہے اُن کی زیرنگرانی ”ارض مقدس”208صفحات پر مبنی کتاب میں تقریباً50صفحات کمر تصاویر کے بھی ہیں۔ انہوں نے یہ مشکل کام یعنی طباعت اور پھر کتاب کا پاکستان سے یہاں تک کا سفر قابل ذکر ہے۔ پڑھنے اور تقریب میں شریک کو شاید معلوم نہ ہو ہم نے امریکہ اور پاکستان کے مقبول شاعر جو مزاحیہ شاعری کے لئے مشہور ہیں مشیر طالب مرحوم کی کتاب کی ذمہ داری دی تھی۔ اور سنا تھا اس کام کے بھی بھی وہ ماہر ہیں اور ہونا چاہئے تھا لیکن کتاب شائع ہوئی تو مایوسی ہوئی اور یہاں ایک کاپی نہیں آسکی یہ کام ہمیں خود کرنا پڑا۔ اس لحاظ سے قمر بشیر خوش قسمت ہیں کہ انہیں عامر بیگ نے پھڑ لیا اسکی مشہوری کی ضرورت تھی لیکن عامر بیگ کے تقریر میں ذکر کے باوجود کسی نے ذکر نہ کیا اور ہمیں حیرانی ہوئی۔ قمر بشیر صاحب تو عرصہ تک علیل رہنے کے بعد اب شگفتگی سے بولنے لگے ہیں اور یہ ہمارے معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا اجراء نیوفرعلیم نے ڈیلاس میں کرا کر حساب برابر کیا جس کی انہیں داد دینگے۔
قمر بشیر نے اپنی تقریر میں گفتگو کا آغاز عمدگی سے کیا اور ناظرین کی توجہ سمیٹ لی۔ کچھ لوگ باتیں کرتے رہے اور ناظم نے بڑی شائستگی سے انہیں منع بھی کیا۔ بشیر قمر صاحب نے حقیقت آمیز انکشاف کیا کہ مجھے مشہوری کا شوق تھا خود کو نمایاں کرنے کا جنون تھا۔ ایسا ہر کوئی لکھاری چاہتا ہے لیکن قمر بشیر نے اپنا یہ سفر جاری رکھا نیویارک میں انہوں نے ان گنت کام کئے۔ قمر علی عباس کو اجاگر کرنے اور منظر عام پر(ادبی حلقوں میں) پر لانے میں بھی ان کا ہاتھ ہے۔ اخبار نکالا، اور بڑی بات کی پاکولی(PAKOLI) بنا کر وہ اس تنظیم کے بانی ہیں اسی طرح جیسے قائداعظم پاکستان کے بانی تھے فرق یہ ہے انہیں نہیں معلوم تھا کہ لوگ پاکستان کا کیا حشر کرینگے۔ لیکن قمر بشیر کی یہ بھی خوبی کہ انہوں نے پاکولی کے عہدیداروں کو چن چن کر رکھا ہے جو پاکولی کو اُن کی عدم موجودگی میں چلا سکتے ہیں۔ ہماری ہدایات ہیں کہ اس مثال پر نہ چلو ”اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے اس کی یاد دہانی ہم پاکولی کے صدر ہمایوں بشیر کو کرا چکے ہیں نیویارک میں بہت سے لکھاری اور شاعر ہیں جو مستحق ہیں کہ انہیں پاکولی مسرا ہے۔ ایسے بھی لکھنے والے ہیں جو بناء کسی مشہوری کے اپنے کالم میں اپنوں کے علاوہ بھی دوسروں کی تعریف لکھتے ہیں لکھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے ہمارے پاس لیکن ان بچوں سے کہنا بے کار ہے پڑھنے اور تقریر کرنے والوں میں نیویارک اور شمالی امریکہ کے جانے پہچانے اور مشہور لوگ تھے۔ عتیق صدیقی، رفیع الدین راز، جمال محسن، یہ تمام ہماری نظر میں اردوب ادب ک وزندہ کئے ہوئے ہیں اور واصف حسین واصف ایک دانشور کی حیثیت میں موجود ہیں کتاب پر جو کچھ کہا گیا وہ قابل سماعت تھا۔ اور خوب تھا۔کس کس کا ذکر کریں؟اعجاز بھٹی پنجابی اور اردو کے مشترکہ پسندیدہ شاعر ہیں دلچسپ انسان، ناظم اور پیارے انسان ہیں ان کا ذکر ضروری ہے کہ یہ لوگ ہی اب اردو کی شمع روشن کرتے رہینگے فکروفن کے تحت اور تمام افراد نے مل کر کتاب ارض مقدس کے اجراء کی تقریب کو چار چاند لگائے یہ ایک بھرپور پروگرام اور ہمیں اس پر کوئی ایسی بات لکھنے کا موقعہ نہیں ملا جو کالم کے زمرے میں آتی ہے یعنی ”ہجوگوئی” عامر بیگ کو بتاتے چلیں کہ یہ سفرنامہ سے زیادہ اُن کا یہ کہنا کہ یہ سفر نامہ اسرائیل ہے۔ تمام مذاہب(تین) کی تعریف میں بشیر قمر نے جو کچھ لکھا ہے سب کو رام کیا ہے۔ ہماری دلی مبارکباد اور خواہش کہ وہ لکھتے رہیں۔ یہ ہم سب کے لئے ایک تحفہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭










