ہزاروں سال پرانے تہذیب و تمدن کے حامل ملک ایران پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بنائے ہوئے گولے بارود کی ایسی بارش شروع ہوئی ہو ئی ہے، جس کی گھن گرج سے غزہ کے معصوم بچوں، مجبور خواتین اور مظلوم عوام کی چیخیں کچھ دب سی گئی ہیں۔ شاید یہی اس شور و غل کا مطمحِ نظر بھی ہے۔ پچھلے پچھتر سال سے، صیہونی سازشی عناصر کا، ایک ایک کرکے مسلمان اکثریت رکھنے والے ممالک پر ظلم و ستم جاری ہے۔ فلسطین کے بڑے حصے پر قبضے کے بعد ایک ایک کر کے مصر، اردن، لبنان، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور شام جیسے ممالک کو فتح کیا جاتا رہا تو باقی ملکوں نے چپ سادھے رکھی۔ آجکل ایران کی باری آئی ہے۔ خاکم بدہن، ان کا اگلا ہدف پاکستان دکھائی دیتا ہے۔ قابض صیہونی طاقت نے غزہ کا تو پچھلے بیس سال سے باقاعدہ محاصرہ کر کے نسل کشی کی تیز ترین مہم چلائی ہوئی ہے۔ ان معصوموں پر ہونے والے مظالم یقینا ناقابلِ برداشت ہیں۔ اس پہ طرہ یہ ہے کہ اقوام عالم اور مسلمانوں کے پچپن سے زائد آزاد ممالک اپنی عیش و عشرت کی دنیا میں ایسے گم ہیں جیسے ہر جگہ امن و آشتی ہے۔ صاحبِ اقتدار لوگ، اپنے صیہونی آقاں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر وقت قطار میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ علامہ اقبال نے خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کیلئے فرمایا تھا کہ!
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
دنیا کے مروجہ ورلڈ آرڈر کی سب سے بڑی ضرورت، اس کے احکامات کی ہر صورت اطاعت ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی سر پھرا، اس ورلڈ آرڈر سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔ فلسطینیوں کی بدقسمتی یہی ہے کہ وہ ایک یونی پولر ورلڈ آرڈر کے زیرِ عتاب آنے والے اولین ممالک میں شامل ہیں۔ ان کے گھر پر کسی غیر کے قبضہ کا المیہ دنیا کو سمجھ ہی نہیں آرہا کیونکہ پچھتر سال گزرنے کے بعد نئی نسلیں، اس تنازعے کے پسِ منظر کو ہی بھول چکی ہیں۔ آج جب میڈیا پر ٹو اسٹیٹس اور ون اسٹیٹ کے فارمولوں پر بحث ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بڑا دکھ ہوتا ہے۔ صیہونی طاقتوں نے تو تاریخ کو ہی مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ مظلومیت کے آخری درجے تک پہنچے ہوئے فلسطینی بچے اور خواتین بھی ورلڈ آرڈر کے لیئے اتنے خطرناک بنا دیئے گئے ہیں کہ انکی نسل کشی بھی ایک ویڈیو گیم بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورتحال میں، ساحر لدھیانوی نے بالکل صحیح پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
موجودہ ورلڈ آرڈر کی بنیاد بلاشبہ جنرل سیسی ماڈل پر قائم ہے۔ ملٹری ڈکٹیٹر شپس کے ذریعے مسلمان اکثریت کے بظاہر آزاد ممالک پر غلامی کے سائے برقرار رکھے جا رہے ہیں۔ جس ملک میں بھی کوئی سیاسی رہنما معمولی سی جرت یا آزاد سوچ دکھانے کی کوشش کرتا ہے، رجیم چینج آپریشن کے ذریعے، اس کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ مسلمان دنیا کے سادہ عوام، بہت لمبے عرصے تک تو حب الوطنی کے تقاضوں کے پیشِ نظر بیوقوف بنتے رہے لیکن غزہ، ایران، ترکیہ، مصر، پاکستان اور چند دیگر ممالک کے لوگوں کی مزاحمت کی تحریکوں نے حالات کافی حد تک بدل دئیے ہیں۔ جرنیلوں کے خلاف نفرتوں میں یقینا اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ کی غیر روایتی قیادت نے بھی سپر پاورز کی کچھ منافقتوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ صیہونی طاقتوں کیلئے تو مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کے معصوم بچوں کی اللہ تعالی کے حضور کی گئی شکایتوں کا کوئی نہ کوئی جواب تو آئے گا، ان شااللہ۔ یہ سب دیکھتے ہوئے، ساحر لدھیانوی کے ان اشعار کو بار بار دہرانے میں کوئی ہرج نہیں۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
٭٭٭













