امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے گئے۔ وائٹ ہاوس میں ریپبلکن قانون سازوں کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ درحقیقت، طیارے مار گرائے جا رہے تھے۔واضح رہے کہ بھارت نے چھ مئی کو بلا اشتعال پاکستانی حدود میں جارحیت کا آغاز کیا، جس کے بعد پانچ روز تک کنٹرول لائن اور فضائی محاذ پر شدید کشیدگی رہی۔ چھ مئی کو بھارتی طیاروں نے آزاد کشمیر کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جس پر پاکستان نے فوری اور موثر جواب دیا۔ سات مئی کو پاکستانی فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے، جن میں سے ایک کا ملبہ آزاد کشمیر میں گرا۔ آٹھ مئی کو بھارت نے بین الاقوامی سرحد کے قریب توپ خانے کا استعمال شروع کیا، جس سے متعدد شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نو مئی کو پاکستان نے عسکری اور سفارتی دونوں محاذوں پر بھارت کو سخت پیغام دیا، جبکہ عالمی برادری سے بھی رجوع کیا گیا۔ دس مئی کو پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے مزید تین طیارے مار گرائے، جن کی تباہی کا بعد ازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اعتراف کیا۔ یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت خطے کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتا تھاامریکی صدر کا یہ اعتراف صرف جنگ کی شدت کو واضح کرتا ہے بلکہ اس امر کی تصدیق بھی ہے کہ امریکہ ان جھڑپوں کی سنگینی سے بخوبی آگاہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ واقف تھا کہ جنگ اپنے عروج پر ہے، اور بھارت کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے، تو پھر جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ جو یقین دہانیاں دی گئیں، ان پر عمل کب ہو گا؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کا اس جنگ میں پلڑا بھاری تھا۔ کئی محاذوں پر بھارتی افواج پسپا ہو چکی تھیں، اور اگر پاکستان چاہتا تو اس وقت لائن آف کنٹرول عبور کر کے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کر سکتا تھا۔ لیکن پاکستان نے بین الاقوامی ذمہ داری، علاقائی امن اور سفارتی اخلاقیات کو فوقیت دی۔ اس نے امریکہ سمیت عالمی قوتوں کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے امن کی راہ چنی وہ امن جو پاکستان کی عسکری کامیابی کے عین وسط میں مانگا گیا۔ اور پھر، انہی کوششوں کے تسلسل میں، امریکی صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی قیادت نے جنگ بندی سے پہلے کشمیر اور سندھ طاس معاہدے جیسے بنیادی تنازعات اٹھائے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ثالثی محض ایک وقتی بیان تھا؟ یا امریکہ اپنے وعدہ کے مطابق جنگ بندی کے بدلے مسئلہ کشمیر کو انصاف کے اصولوں کے مطابق حل کروانے میں کردار ادا کرے گا؟ ٹرمپ کے اعتراف سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ جھڑپیں شدید تھیں، اور نقصان بڑا تھا مگر کیا امریکہ محض “آگ بجھانے” کے لیے بیچ میں آیا، یا واقعی انصاف قائم کرنے کے لیے؟پاکستان نے امن کی خاطر جنگ بندی کی، لیکن بھارت نے اس کے بعد بھی نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کی۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رہیں، پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ایسے میں امریکہ کی خاموشی کیا اس بات کی غمازی نہیں کہ اس نے اپنی اخلاقی ذمہ داری کو پس پشت ڈال دیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک طرف امریکہ ثالثی کا وعدہ کرے، اور دوسری طرف بھارت کو ہر جارحیت پر چشم پوشی کا پروانہ دے؟ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ہر موقع پر امن کو ترجیح دی ہے۔ چاہے وہ کارگل کی جنگ ہو، یا پلوامہ حملے کے بعد کا بحران ۔ پاکستان نے اشتعال انگیزی کے جواب میں بھی صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ اب بھی، پاکستان سفارتی محاذ پر تنازعات کے حل کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن خطے میں پائیدار امن صرف پاکستان کی کوششوں سے ممکن نہیں۔ جب تک بھارت کے جنون کو لگام دینے کے لیے عالمی قوتیں خصوصا امریکہ اپنی وعدہ کردہ ثالثی اور دباو کا کردار ادا نہیں کرتا، اس خطے میں جنگ کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہے گا۔صدر ٹرمپ نے جس صاف گوئی سے طیاروں کے مار گرائے جانے کا ذکر کیا، اسی صاف دلی سے اب انہیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ اور یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر جنگ میں پاکستان نے کنٹرول لائن پار نہیں کی، تو یہ اس کی کمزوری نہیں بلکہ اخلاقی برتری تھی۔ جس کی بنیاد امریکہکی یقین دہانیاں تھیں۔ آج جب امریکہ عالمی سیاست میں انصاف، مساوات اور ذمہ داری کے دعوے کرتا ہے، تو اسے خود اپنے ہی وعدوں سے انحراف زیب نہیں دیتا۔وقت آ چکا ہے کہ امریکہ بھارت کو کھل کر پیغام دے کہ:اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کروایا جائے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند ہو۔سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی روکی جائے۔پانی کو ہتھیار بنانے کی بھارتی کوششیں ناقابلِ قبول قرار دی جائیں۔اگر امریکہ واقعی جنوبی ایشیا میں امن چاہتا ہے تو اسے صرف بیان بازی نہیں، عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورتِ دیگر، اگر دو جوہری طاقتیں ایک بار پھر آمنے سامنے آئیں، تو یہ تاریخ کی سب سے بڑی سفارتی ناکامی کہلائے گی اور اس میں امریکہ کا کردار صرف تماشائی کا نہیں، بلکہ مجرمانہ خاموشی کا ہوگا۔پاکستان نے امن کے لیے ایک دروازہ کھولا تھا۔ اب عالمی برادری اور امریکہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق انصاف، توازن اور امن کی بنیاد رکھیں۔ یہی دنیا کی سلامتی کا تقاضا ہے اور یہی امریکی قیادت کا اصل امتحان بھی۔
٭٭٭











