کتاب : گوش قفس
سالِ اشاعت :
نارِ نمرود بجھا دے، وہ براہیم کہاں؟
مقتلِ جاں سے اِنہیں اب تک نہ گزرنا آیا
ریگِ ساحل کو رہے پھانکتے سارے واعظ
اِن کو اِس بحر کی تہہ میں نہ اترنا آیا
شاعر الجھ کے رہ گئے ہجر و وصال میں
بچھڑے ہووں سے ملنے کی بس آس رہ گئی
قبضے میں حسن آ گیا سرمایہ دار کے
تعریفِ حسن شاعروں کے پاس رہ گئی
ہاتھوں میں اہلِ زر کے حسینوں کی ہے زمام
کچھ بھی نہیں ہے اب تو حسینوں کے ہاتھ میں
آتی ہے شرم جام اٹھاتے ہوئے مجھے
دیکھے ہیں جب سے جام کمینوں کے ہاتھ میں
غریب لوگوں کا جینا محال ہے اب تو
عروسِ زیست کی لذت ہے اہلِ زر کے لیے
عجب نہیں کہ اندھیروں سے روشنی پھوٹے
کسی کے خوں کی ضرورت ہے اب سحر کے لیے
فرعون کتنے آئے تھے، آ کر چلے گئے
تیری بساط کیا ہے جہانِ خراب میں
تو نے ہزاروں لوگوں کے خوں سے رنگے ہیں ہاتھ
آیا ہوا ہے تو تو خدا کے عذاب میں
میں نوچ لوں گا اندھیروں کا منہ ذرا ٹھہرو
میں چھین لوں گا تب و تابِ صبحِ خنداں کو
میں برق بن کے جلا دوں گا قصرِ شاہی کو
میں توڑ دوں گا سلاسِل کو، طوقِ زنداں کو
میرے مزاجِ تند میں تلخی بلا کی ہے
جائز نہیں کہ شرحِ لبِ مشکبو کروں
رکھتا ہوں اپنے ہونٹوں کو اِس واسطے میں بند
مردہ ضمیر لوگوں سے کیا گفتگو کروں
٭٭٭














