فتح سدا مظلوم کا نصیب ہے!!!

0
642
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم کی اختتامی سطور میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے موجودہ رجیم کے اصلی حکمرانوں کو 9 مئی کے حوالے سے وطن عزیز کی سب سے بڑی جماعت کے رہنمائوں کو سزائیں اور جماعت میں دراڑیں ڈالنے کے اثرات و نتائج پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس قسم کے روئیے وطن و عوام دشمنی کے سواء کچھ نہیں ہو سکتے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے، فیصل آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے نے اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ عدالتیں حکم حاکم مرگ مفاجات پر عمل کر کے وہی فیصلے کریں گی جو موجودہ اصل حکمران کی مرضی ہے، متذکرہ فیصلے میں ایک جانب قومی اسمبلی و سینیٹ کے قائدین حزب اختلاف سمیت پی ٹی آئی کی توانا آواز زرتاج گل، سنی اتحاد کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا سمیت 196 افراد کو سزائیں سنائی گئیں تو دوسری جانب توبہ اور پریس کانفرنس کے تائب ہونیوالے فواد چودھری و زین قریشی سمیت 77 افراد معصوم قرار دے کر بری کر دیئے گئے۔ فواد چودھری کو تو دو بار دفاع کی سہولت سے بھی نوازا گیا، انصاف کا ترازو واضح طور پر فیلڈ مارشل کی منشاء کے مطابق ہی جُھک رہا ہے۔ عدالت ماتحت ہو یا اعلیٰ و عظمیٰ، نظر یہی آرہا ہے کہ فیصلے حضور والا کی مرضی و ہدایات کے موجب ہی ہونگے۔ قومی و پنجاب اسمبلی اور کانگریس میں پی ٹی آئی کے قائدین و اراکین کو سزائیں اور الیکشن کمیشن کا ڈی سیٹ کرنے کا فوری اقدام اقتدار پر براجمان قوتوں کے عمران اور پی ٹی آئی کیخلاف مذموم ارادوں و ایجنڈے کی تصویر نہیں تو اسے کیا کہا جائے۔
ان منافرانہ و ظالمانہ اقدامات سے مقتدرہ اور اس کی باجگذار حکومت ملک کی سب سے بڑی و مقبول سیاسی جماعت اور خان کیخلاف عوام میں غلط فہمیاں اور مایوسیاں پھیلانا چاہتی ہے تو دوسری جانب پارٹی کے اندر تقسیم اور تفریق برپا کر کے اپنے مقاصد بشمول 27ویں ترمیم و غیر معینہ مدت کیلئے رجیم کی طوالت کو یقینی بنانا مقصد ہے۔ گزشتہ تین برسوں سے خان و عوام کیخلاف اسٹیبلشمنت کے بیہمانہ غیر جمہوری اقدامات و مظالم اور حربوں کے باوجود نہ خان کو کمزور یا کسی ڈیل ڈھیل پر مجبور کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ووٹ بینک متاثر کیا جا سکا ہے، البتہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے رویوں اور کاسۂ لیس حکومتی کل پُرزوں کے عوام دشمن پروپیگنڈے کے سبب خوف کیساتھ مقتدرہ اور عوامی نمائندگی سے محروم سیاسی اشرافیہ کیخلاف نفرت کا مادہ فروغ پا رہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کی نفرت کا یہ سلسلہ خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد اور اس کی حکومت کے خاتمے کے وقت سے شروع ہو چکا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے تمام تر حربوں، مظالم و تحریک انصاف کے نام و انتخابی نشان پر قدغن کے باوجود 5 فروری 2024ء کو عوام نے عمران سے اپنی محبت و حمایت کا ثبوت دے دیا تھا۔ مقتدرہ اور پالتو حکومتی ہرکاروں کی سختیوں، ظالمانہ اقدامات و پابندیوں کے باوجود، بے حساب گرفتاریوں، شہادتوں اور مضروبیات کے باوجود عوام کی جدوجہد نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک آج بھی جاری ہے۔ عمران کی حمایت و رہائی کی جدوجہد کیخلاف آتش و آہن اور فرعونیت کا سلسلہ بھی تھمنے میں نہیں آرہا ہے۔ عمران کی پُر امن احتجاجی تحریک کی کال اور تحریک تحفظ آئین کے اشتراک کے اعلان کے بعد جعلی حکومتوں کے اسلام آباد و پنجاب خصوصاً لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذکنٹینرز لگانے،جلسے کی منسوخی کے منافرانہ اقدامات، کیساتھ 5 اگست کو استحصال کشمیر کے حوالے سے پی ٹی آئی کیخلاف بھارت نوازی کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا، بہرحال احتجاج ہوا پاکستان میں ہی نہیں اورسیز پاکستانی بھی سراپا احتجاج تھے۔پاکستانی چیلنجز پر تو پابندی تھی لیکن سوشل میڈیا اور الجزیرہ سمیت غیر ملکی چیلنجز نے بھرپور کوریج کی، ن لیگ کے بھونپو عمران کیخلاف بالخصوص نیویارک ٹائمز میں پاکستانیوں کی جانب سے خان کی رہائی کیلئے اشتہار کی اشاعت پر ہذیان بک رہے ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ فیلڈ مارشل کی خوشنودی حاصل ہو اور خان کی تحریک کو ناکام بنایا جا سکے۔ انہیں یہ خبر نہیں کہ جو لوگ عوام کے دلوں میں بستے ہیں ان کو کسی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ عوام کی طاقت پر اعتماد رکھتے ہیں اور خان کی طاقت ملک میں وبیرون پاکستانی ہیں۔
ہم نے گزشتہ ہفتہ رجیم کے اصل حکمران سے عرض کیا تھا کہ جبر کے روئیے وطن اور عوام کیلئے ہر گزدرست نہیں، ایوب خان کا محترمہ فاطمہ جناح کیخلاف، ضیاء الحق کا بھٹو کیخلاف، پرویز مشرف کا نواز شریف و بینظیر کیخلاف ظلم و جبر اور عوام کا رد عمل بہترین مثالیں ہیں۔ ظالم و مظلوم کے درمیان فتح، ہمیشہ مظلوم کی ہی ہوتی ہے۔
ظلم کی زیست فقط چار گھڑی ہوتی ہے
کامراں ظلم پہ مظلوم سدا ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here