اگر ہم پاکستان کو ایک جمہوری ملک مانتے ہیں تو یہ ملک جمہور کے نمائندوں یعنی سیاستدانوں نے ہی چلانا ہے۔۔۔۔ اگر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پس پردہ ڈالنے والے فوجی جرنیلوں کا یہ خیال ہے کہ وہ اس ملک کا بیڑا اٹھا سکتے ہیں تو پھر پردے سے باہر نکل کر ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگا کر اپنا شوق پورا کرلیں، پاکستان میں سیاستدانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوجی جنرلوں کی طرف سے کٹھ پتلیاں پیدا کرنے کا رواج کوئی نیا نہیں، عمران خان بھی انہی کٹھ پتلیوں میں سے ایک ہے۔ عمران خان کی سیاسی جدوجہد اپنی جگہ مگر اس کی سیاسی پیدائش کی حقیقت خود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بھی نہیں چھپا سکتے۔ایک وقت یہ تھا کہ ان کا کٹھ پتلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ یہ اپنے ہی خالق پر حملہ آور ہوں گے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ لیڈر تو اس اعتماد میں نظر آتے تھے کہ فوج کے پاس ان کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں۔ اسی بات پر ردعمل دیتے ہوئے ایک بار خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ آپشن ہر وقت موجود ہوتے ہیں، مگر فوجی جرنیلوں کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں یہ دونوں آپشنز یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میسر نہیں رہے، لیکن اب فوج کے پاس اپنا تیار کردہ سب سے بہترین آپشن بھی موجود نہیں رہا، آج ہم ایک بار پھر اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں پر فوج کی کٹھ پتلیوں کی عدم بقا درحقیقت پاکستان کی بقا اور ترقی کی جانب سفر کا آغاز ہوسکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو ہمیشہ سے ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت رہی ہے سوائے سابق صدر آصف علی زرداری کی مصالحت پر مبنی چند اقدامات جو پیپلز پارٹی کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے تشخص کو نقصان پہنچاتی رہے، مسلم لیگ ن کا پھول بھی فوجی نرسری میں کھلا، مگر دیر آئیدرست آئے اس جماعت نے بھی فوجی آشیرباد سے چھٹکارا پا لیا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں عمران خان وہ بچہ ثابت جس کو بڑے لاڈ پیار سے اپنی گود میں پالا گیا، ناز نخرے اٹھائے گئے اور مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو اپنی ماتحت عدلیہ میں اعلان کرنا پڑا، آئین و قانون کو چھوڑ کر اپوزیشن کو سزائیں دو، نااہل کرو کیوں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، حالت جنگ کا کوئی اصول یا قانون نہیں ہوتا، آج فوج کے پاس اپنا آخری آپشن بھی بظاہر ختم ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے دیگر سیاسی جماعتیں قانون سازی میں مصروف ہیں، عدلیہ کے بے جا مداخلت روکنے کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھے ہیں، کبھی پاکستان ڈیفالٹ کر جانے کے خدشے کی خبر آتی ہے تو کبھی ملک میں انتشار پھیل جانے کی، آج موقع ہے کہ جب تقریبا سبھی سیاسی جماعتوں نے فوج چائے کا مزہ چکھ لیا ہے، اس کے بعد اب صرف فیصلہ کرنا ہے کہ مستقبل میں ہماری سیاسی جماعتوں نے دوبارہ فوجی چائے پینی ہے یا اپنی پارلیمنٹ کی لسی پر گزرا کرنا ہے،بہرحال اگر تمام سیاسی جماعتیں چاہیں تو آج سے ان کا سفر آزادی جمہوریت کا آغاز ہوسکتا ہے۔
٭٭٭