”ینی چری، جاں نثار”!!!

0
53

سلطنت عثمانیہ کے سب سے طاقتور اور دلیر سپاہی ینی چری ہوتے تھے۔ ینی چری ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب نئے سپاہی بنتا ہے۔ یہ سلطان/ خلیفہ کا ذاتی باڈی گارڈ ہوتے تھے۔ یہ سلطان کے ساتھ اپنی وفاداری اور اپنی بہادری کے لئے مشہور تھے۔ ان کو جاں نثار بھی کہا جاتا تھا، جو خلیفہ کے حکم پر اپنی جان دینے کو تیار رہتے تھے۔
یہ ان نوجوانوں پر مشتمل دستہ تھا جو کہ بلکان کے علاقے کے عیسائیوں کے بچوں سے چنے جاتے تھے۔ اس چنا ئوکے عمل کو دو شیرمہ کہا جاتا تھا جس کا مطلب خونی جزیہ بنتا ہے۔ یہ بچے بلکان کے رسا کی اولاد ہوتے تھے نا کہ عام لوگوں کی۔ ان کے اندر سلطان سے وفاداری اور ایک دوسرے کے ساتھ باندنگ پر بہت ذور دیا جاتا تھا۔ ان کی ٹریننگ بچپن سے ہی شروع ہوجاتی تھی۔یہ اپنے ڈسپلن، خیلفہ سے وفاداری اور ایک دوسرے کے ساتھ باندنگ کے لئے مشہور تھے۔ ان کو سب سے پہلے مسلمان کیا جاتا تھا، ان کے ختنے کئے جاتے تھے۔ پھر ان کی سخت ملٹری ٹریننگ شروع ہو جاتی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام تیرھویں صدی کے آخر یا چودھویں صدی کے شروع میں وضع کیا گیا تھا۔ مگر اس کا ذکر پہلی بار 1438 میں ملتا ہے۔ ان بچوں کو ناصرف ملٹری ٹریننگ دی جاتی تھی بلکہ کار مملکت چلانے کی بھی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ اس لئے ترکی کی سلطنت کے وزیر، دیوان اور بیروکریٹس بھی انہیں میں سے سیلیکٹ کئے جاتے تھے۔شروع میں ان کے شادی کرنے پر پابندی ہوتی تھی۔ ان کو اچھی تنخواہ اور پینشن دی جاتی تھی۔آہستہ آہستہ یہ لوگ اتنے طاقتور ہوگئے کہ پورے سلطنت عثمانیہ کا سب سے طاقتور طبقہ بن گئے۔ تاریخ میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ان میں کچھ بچے یہودیوں کے ھی لئے جاتے تھے۔ اگرچہ شروع میں بلکانی عیسائیوں کے بچے اس کام کے لئے لئے جاتے تھے پھر جب سلطنت کے ضرورت بڑھ گئی تو یونانی، البانوی۔ بوسنیا، سربیا، بلغاریہ اور ہنگری کے علاقوں سے بھی بچے لئے جانے لگے۔ تیرہویں صدی میں ترکی کے شہر انتولیہ کے ایک بزرگ حاجی بیکٹیش ولی نے ایک صوفی سلسلے کی نیاد رکھی جوکہ سنی اور شیعہ فرقوں کا امتزاج تھا۔ ان کا اپنا ایک مظبوط نیٹ ورک تھا جسے وہ بزرگ کنٹرول کرتے تھے جنہیں بابا کہا جاتا تھا۔ بابوں کا اپنا ایک پیشوائی یا پیری مریدی کا نظام تھا۔ جس میں ہر علاقے میں ایک بابا کنٹرول کرتا تھا۔ ینی چری لوگ اس پیشوائی صوفی نظام کا حصہ ہوتے تھے۔ ہر چند سال کے بعد ترک سلطنت کے ایڈمنسٹریٹر عیسائی علاقوں کا دورہ کرتے تھے اور رولنگ کلاس کے صحت مند بچے سیلیکٹ کرتے تھے۔ پھر انہیں ایک ترک خاندان کے حوالے کر دیا جاتا تھا جو انہیں ترکی زبان اور کلچر سکھاتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ملٹری ٹریننگ بھی ہوتی رہتی تھی۔ انہیں پڑھنا لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ ترک سلطنت کا ایک طاقتور طبقہ بن گئے۔ جب یورپ میں سیاسی ریفارمز ہو رہی تھیں اور یورو ہین ملٹری کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جارہا تھا، ترکی کے اس بااثر طبقے نے ہر قسم کی ریفارم کی مخالفت کی۔ چونکہ یہ لوگ اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ خلیفہ ان کی مرضی کا غلام تھا اس لئے وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک خیلفہ عثمان ثانی نے ان کی قوت کم کرنے اور ملٹری ریفارم کی کوشش کی تو انہوں نے 1622 میں اسے قتل کردیا۔ اسطرح جو فوج سلطنت عثمانیہ کا ایک فخر تھی ایک سفید ہاتھی بن گئی جس نے سلطنت عثمانیہ کو آہستہ آہستہ دیمک زدہ کر دیا۔ جو عیسائی اپنے بچے دینے سے انکار کر دیتے تھے انہں قتل کردیا جاتا تھا۔ اگر کوئی بچہ بھاگنے کی کوشش کرتا تو اس کے والدین کو اس وقت تک ٹارچر کیا جاتا جب تک بچہ خود واپس نہ آجاتا۔ تاریخ میں البانیہ کے ایک بچے کا ذکر ملتا ہے جسے زبردستی مسلمان بنانے اور ختنے کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بھاگ کر چھپ گیا۔ ترکوں نے اس کے والدین کو ٹارچر کرنا شروع کر دیا۔ آخر وہ بچہ واپس آگیا۔ مگر اس نے مسلمان ہونے سے انکار جاری رکھا اور خودکشی کرکے اپنے والدین کی جان بچائی۔ اسی طرح 1655 میں البانیہ کے کچھ لوگوں نے اپنے بچے دینے سے انکار کیا اور ترک سپاہیوں کو قتل کر دیا اور جنگلوں میں چھپ گئے۔ مگر ترکوں نے ان کی تلاش جاری رکھی اور آخر 1705 میں پکڑے گئے اور ان سب کو قتل کر دیا گیا۔
آخر اٹھارویں صدی کے شروع میں سلطان احمد ثالث نیدوشیرمہ نظام کا خاتمہ کردیا اور ترک عیسائیوں اور یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اٹھارویں صدی کے شروع تک ان کی تعداد چوالیس ہزار کے قریب تھی۔
آہستہ آہستہ ناصرف یہ طاقتور ہوتے گئے بلکہ ان میں کرپشن بھی بہت پھیل گئی تھی۔ ہر ترک ان کی کرپشن سے تنگ تھا۔ 1807 میں سلطان سلیم ثالث نے ان کی قوت کم کرنے اور ملٹری ریفارم کی کوشش کی تو انہوں نے بغاوت کردی۔ (یہ ان کی پہلی بغاوت نہیں تھی )۔ اور سلطان کو معزول کر دیا۔ سلطان سلیم ثالث نے جو نئی ملٹی بنانے کی کوشش کی اس کا نام نظام جدید رکھا۔ مگر اس کی معزولی کے بعد محمود ثانی تخت نشین ہوا۔ محمود ثانی نے بھی جب ریفارم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بغاوت کردی اور اسے قتل کرنے کی کوشش کی، مگر وہ تیز نکلا اور ان کے سردار مصطفے چہارم کوقتل کروا دیا۔
آخر 1826 میں سلطان اس قابل ہو پایا کہ اس سفید ہاتھی سے جان چھڑا سکے۔ اسطرح 1826 میں سلطنت عثمانیہ کا یہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ مگر انہوں نے جس طرح سلطنت عثمانیہ کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا اس کے اثرات خلافت عثمانیہ کی اختتام تک جاری رہے۔ آخر سلطنت عثمانیہ یوروپینز سے ہار گئی اور اتاترک نے اس کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here