سیلاب سے بچنے کا حل ”بند، بند اور بند”

0
62
کامل احمر

صدر ٹرمپ بول پڑے۔ اس ٹرم میں پہلے سے بھی زیادہ بول رہے ہیں لگتا ہے کوئی اندر بیٹھا انہیں لکھ کر دیتا ہے روزانہ کی بنیاد پر اس دفعہ وہ پاکستان کے لئے بول پڑے۔ اور انڈیا پر الزام لگاتے رہے۔ پاکستانی حکام بے حد خوش اور سوجاں ہی موجاں کہ سیلاب آنے سے انہیں مالی امداد ملے گی اور جیسے وہ کھا پی کر یا اپنے ذاتی مفاد میں خرچ کرینگے یہ طوفان ختم ہوجائیگا عوام پھر مریم کے پیچھے لگ جائینگے اور اگلے سال کی تباہی کا انتظار کرینگے اور حکومت کے ساتھ مل کر عمران خان کو گالیاں دینگے۔
صدر ٹرمپ کہہ رہے تھے کہ انڈیا نے کشمیر کے ڈیم کھول دیئے جس کی وجہ سے پاکستان میں تباہی اور بربادی ہوئی یہ انڈیا کی تخریب کاری ہے۔ دنیا بھر سے کہتا ہوں کہ پاکستان کی مدد کرو ہم پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنائینگے لیکن کیسے جب کہ حکمران اور جنرلز ایسا نہیں ہونے دینگے۔ صدر ٹرپ اسے انڈیا کی شرارت کہتے ہیں حیرانی ہے کہ یہ بات انہیں اب معلوم ہوئی جب کہ انڈیا پچھلے77سالوں سے تخریب کاری کر رہا ہے اور امریکہ لہتے ہوئے شرماتا رہا ہے۔ انگریزوں نے انڈیا پر200سال حکومت کی اور جب گئے تو سب کچھ انڈیا کو نچھاور کرگئے برعکس اس کے امریکہ نے بھی پاکستانی کی مدد کی لیکن تخریب کار جنرلوں اور کرپٹ حکمرانوں کے ذریعے اور عوام پستے رہے اور پس رہے ہیں۔ تو حکومت اور جنرلز خوش نہ ہوں امریکہ کبھی ہاں اور کبھی ناں کی مثال ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے۔ ناں ہی ناں رہی ہے۔1971میں امریکہ کا بحری بیڑا نہیں پہنچا۔ عوام انتظار کرتے رہے یاد ہے نا۔ اور عوام بھی اب حکومت کی طرح ہیں خفیہ معاہدے تحت کہ تم ڈاکے مارو ہم چوری کرینگے میرا مطلب سیدھے سادھے عوام سے نہیں، ہر جگہ ایسا ہے کراچی پشاور اور پنجاب میں دیکھ لیں یہ حکومت اور جنرلز کی لائی گئی ناانصافی ہے مارٹھ لوتھرکنگ جونیئر نے کہا تھا ”دنیا میں کہیں بھی ناانصافی ہر جگہ ہونے والے انصاف کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے”۔ ملک کیسے ترقی کرتے ہیں قومیں کیسے بنتی ہیں دور خلافت کو پڑھیں اس سے بھی پہلے قرآن کو صرف پڑھیں ہی نہیں اس کی تفسیر کو دیکھیں۔ حضورۖ کی ہدایات پر عمل کریں اور اگر یہ سب کچھ سے کوئی سبق نہیںلیتے تو کتابیں پڑھیں دانشوروں کی ناول نگاروں کی سفر نامے پڑھیں مگر خدا کے لئے پڑھیں صرف پانچ وقت نماز کی ادائیگی کافی نہیں۔ ایک فرض ہے جو سب کے لئے ہے ایک کالمسٹ اور شاعر ابن انشاء چین گئے واپسی میں سفرنامہ لکھ کر چھوڑ گئے جو پڑھنے کی ضرورت ہے کہ قومیں کیسے بنتی ہیں اور ملک کیسے ترقی کرتا ہے۔ لکھتے ہیں۔ ”جب انسان اپنے فائدے کا سوچنے کی بجائے قومی فائدہ کا سوچے تو ایسی قوموں کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا” ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ چین اتنی کم مدت میں یورپ اور امریکہ کو پیچھے چھوڑ گیا اسکی دیکھا دیکھی سائوتھ کوریا بھی بازی لے گیا جاپان کا تو سب کو معلوم ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ اٹھا اور سر چڑھ کر بولا ان ملکوں کے باشندوں نے ملک کا سوچا لیکن ملک کے حکمرانوں نے بڑی جدوجہد اور ایمانداری(نصف ایمان) سے ملک کو بنایا۔ اور جب حکمران ملک کے لئے ہوں تو عوام اُن کو فالو کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران جنرل کیا سبق دے رہے ہیں کہ قوم اچھا کرے۔ سیلاب کی تباہ کاری کا سب انڈیا نہیں ہم خود ہیں۔ پاکستان میں تباہی کہاں نہیں ہوئی ہے۔ پہلے گلگت پھر اسلام آباد پنڈی، لاہور اور اب ملتان، کراچی تو عرصہ سے زرداری کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے بغیر بارش اور سیلاب کے تباہ ہوچکا ہے۔ یہ ہم نہیں بلکہ خواجہ آصف بول رہے ہیں، ستلج، راوی کے پانی کو اسٹور کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ بڑے ڈیموں کے انتظار میں سب کچھ نہ ڈبوئیں۔ چھوٹے ڈیم بنائیں اگر آبی گزرگاہوں پر قبضہ ماری رکھینگے تو سیلاب ہر سال آکر تباہی مچائے گا۔ اس سے پہلے غیر ملکی کانفرنس میں شہبازشریف نے بھی کچھ کیا۔
”تین دریائوں میں سیلاب کی وجہ سے ملک زبردست تباہی کا سامنا کر رہا ہے” اب حکومت اور جنرلز غیر ملکی امداد کا انتظار کریں جو عوام تک نہیں پہنچے گی حسب پلان۔
کاش جنرل عاصم منیر، زرداری اور شرمے یہ بات جان لیتے اور اپنی اولاد کے لئے زندگی کی سہولتوں سے زیادہ تربیت فراہم کرتے پرندے اپنے بچوں کو گھونسلے بنا کر نہیں دیتے پرواز سکھاتے ہیں”۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بند باندھے جاتے، اسکی پلاننگ عمران خان نے آتے ہی شروع کردی تھی لیکن یہ بات جنرلز کو پسند نہ آئی کہ ایسا کرنے سے انکی ہائوسنگ سوسائٹیاں نہ بنتیں۔ عمران خان نے درخت اگانے کی مہم بھی چلائی تھی اور انکی حکومت کو صرف ساڑھے تین سال میں رخصت کرکے انہیں جیل میں بند کردیا۔ پاکستان کی تباہ کاریوں کی ہر شعبہ زندگی میں ایک اونٹ کی مثال ہے کہ ”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی” کہ جس طرف نگاہ پڑتی ہے عجب نظر آتا ہے ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا کر پانی کے بہائو کا رخ ہی موڑ دیا۔ واحد حل بند بند بند تھا لیکن کوئی توجہ نہیں دی گئی امریکہ صرف مالی امداد دے سکتا دوسرے ملک ایسا ہی کرینگے لیکن ان پیسوں کا استعمال وہ ہی ہوگا کہ کینڈویسا رائس نے اسکول میں بچوں کی تعلیم کے لئے70ملین ڈالرز دیئے تھے ان کا کچھ پتہ نہیں۔ اس طرح ملک نہیں چلا کرتے۔ یہ ہی کہنا پڑتا ہے ایسے ویسے کاموں میں ایسا ویسا ہی ہوتا ہے۔
افغانستان زلزلے نے اب تک622جانیں لے لیں ایک ہزار سے زائد زخمی شامل ہیں ایک قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ صوبہ ننگرہار اور کنٹر میں درجنوں مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے یہ جگہ جلال آباد کے قریب ہے لیکن یہ ایک ناگہانی آفت ہے جو ملکوں میں آتی رہی ہے افغانستان کے حکمران جلد ہی یہ نقصان پورا کرینگے کہ وہ اپنی ذات سے زیادہ ملک کا سوچتے ہیں۔ کراچی میں ایک دن کی بارش سے ہوا جو کچھ وہ یوٹیوب دکھا رہا ہے گورنر اور میئر خوش گیپوں میں مصروف۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نشے میں ہیں شاید جو کہتے ہیں ان کے خلاف پروپیگنڈا ہورہا ہے۔ کراچی والو بالخصوص ایم کیو ایم یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے ہم کراچی کے ہیں لیکن کبھی بھی غلط لوگوں کو نہیں سراہتے۔ ایک کالمسٹ کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکمرانوں اور عوام (قبضہ مافیا) کی دھنائی کرے اپنے قلم سے۔
پچھلے دنوں۔لانگ آئی لینڈ کے باکولی سے نکلے نوجوان لیڈر ہمایوں شبیر شیخ نے آئزن ہاور پارک میں قومی دن پر میلہ لگایا کہہ سکتے ہیں یہ بھرپور میلہ تھا مبارکباد تو بنتی ہے انہوں نے ہماری ایک پوسٹ پر کمنٹ لکھا۔ ”ہمیں اپنی کمیونٹی کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے اور مثبت سوچیں”قریب ہوتے تو کہتے” ”بیٹا اس طرح قومیں نہیں بنتیں دیکھ لو کیسی قوم بن رہے ہیں ہم”۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here