سازشی سیلاب !!!

0
59

سازشی سیلاب !!!

پاکستان میں قیامت خیز سیلاب کے بعد ہر کوئی اس کی وجوہات اپنی اپنی بیان کر رہا ہے ، سوشل میڈیا پر الگ بحث جاری ہے جبکہ حکومت کہانی کچھ اور ہی بتا رہی ہے، حکومت کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ بھارت نے راوی میں پانی چھوڑنے سے قبل مطلع کیا تھا حالانکہ بعد میں اس کی تردید سامنے آئی ہے، کون نہیں جانتا کہ بھارت سے پانی جموں’ اجنالہ اور چڑھدے پنجاب کے ذریعے برکی وغیرہ کے قرب وجوار سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ آپ سازشی سیلاب کا جائزہ لینے کے لیے گوگل میپ نکالیں’ جس میں پاک بھارت بارڈر پر انڈیا نے آہنی دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔ اس لیے اْسے گوگل کر کے ٹریس کرنا انتہائی آسان ہے۔ اس بارڈر لائن کے مغربی طرف جتنی ہائوسنگ سوسائٹیاں لاہور’ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں نظر آئیں گی اتنی ہائوسنگ کالونیاں یا سوسائٹیاں آپ کو شاید پورے انڈیا میں زرعی رقبوں پر نہیں دکھائی دیں گی، تو اب یہ سازش کس کے حصے میں آتی ہے اس کا اندازہ آپ باخوبی لگا سکتے ہیں ۔سندھ طاس معاہدے میں راوی’ بیاس اور ستلج بھارت کے حصے میں آئے تھے۔ یہ معاہدہ لینڈ مافیاز کیلئے ہائوسنگ سکیموں کی بین الاقوامی منظوری تھی۔ دریا کی خشک گزر گاہیں انہیں نئے منصوبے سجھانے لگیں۔ خشک ہوتا راوی انہیں لاکھوں ایکڑ کی اسامی محسوس ہونے لگا لیکن یہ جو کنارے کے گائوں لمبائی میں صدیوں سے آباد ہیں’ وہ؟ ان لاکھوں ایکڑوں میں تو وہ زمینیں بھی شامل ہیں جو دریا کے بستر پر نہیں’ اس کے کنارے ہیں۔ یہ زرعی زمینیں جو لاہور کو تازہ سبزیاں’ پھل اور اناج مہیا کرتی تھیں’ لینڈ مافیا کو بے فائدہ دکھائی دیتی تھیں۔ کھلی فضا میں چرنے والے جانور’ ہرے کھیت’ اگتی فصلیں اور گھنے درخت انہیں زہر لگتے تھے۔ لالچیوں کے بھی مسئلے تھے۔ زمین بڑی تھی اور متاثرین زیادہ۔ قانونی طاقت چاہیے تھی۔ مرضی کے قوانین چاہئیں تھے جو اَن پڑھ لوگوں کو اونے پونے پیسے دے کر کہہ سکیں کہ جائو! اب یہ زمینیں ہماری ہیں۔ عوام کا مالی’ جانی اور ملک کا معاشی نقصان کتنا ہو چکا ہے اس بارے میں ابھی حتمی اعداد وشمار سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 15 ارب ڈالرز کا مجموعی نقصان ہو چکا ہے۔ آئندہ دو سے تین دنوں میں سیلاب ملتان سے گزرے گا اور 6 ستمبر کو سندھ میں داخل ہو گا’ اس کے بعد اصل زمینی صورتحال واضح ہو سکتی ہے۔ اس سیلاب نے 2022ء کے سیلاب کی یاد تازہ کر دی ہے اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں 1988ء کے سیلاب کے نقصانات بھی یاد کیے گئے۔ 2022ء میں تقریباً 30 ارب ڈالرز کا نقصان رپورٹ کیا گیا تھا۔ موجودہ سیلاب کا نقصان بھی اس کے لگ بھگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نقصان کتنا ہوا’ اس کا علم جلد ہو جائے گا لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکمران ہر سال سیلاب کا نقصان رپورٹ کرنے اور مالی امداد کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں یا ملک کو سیلاب کے نقصان سے بچانے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا بھی کوئی منصوبہ موجود ہے؟ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکمران عوامی ذہن سازی میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کر دیا گیا ہے کہ ہر سال سیلاب آنا ہے اور نقصان ہونا ہے۔ یہ قدرتی آفت ہے جس کے سامنے انسان بے بس ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قدرتی آفات کا اگر بروقت اندازہ لگا لیا جائے اور حفاظتی انتظامات کر لیے جائیں تو نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں آنے والے سیلاب کی ایک بڑی وجہ پہاڑی علاقوں میں تیزی سے جنگلوں کا خاتمہ ہے۔ لکڑی کے حصول کے لالچ نے ملک کے ایکو سسٹم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2001ء سے 2024ء تک پاکستان تقریباً آٹھ فیصد جنگلوں سے محروم ہو چکا ہے’ جس میں سے تقریباً 78 فیصد درختوں کی کٹائی’ 12 فیصد جنگلات کی آگ اور تقریباً 10 فیصد دیگر عوامل کارفرما ہیں۔ ملک میں چند شرائط کے ساتھ درختوں کی کٹائی پر پابندی ہے۔ خیبر پختونخوا میں صرف پرانے درختوں کی کٹائی کی اجازت تھی’ اس قانون کی آڑ میں سیاستدانوں اور جنگلات کے افسران کی ملی بھگت سے جنگلات کو کاٹ کر اربوں روپے کمائے گئے لیکن ان کا احتساب نہیں ہو سکا۔ بلین ٹری سونامی منصوبہ مکمل کیا گیا لیکن اس کے مثبت اثرات ابھی تک سامنے نہیں آ سکے۔ 125 ارب روپے کا بلین ٹری سونامی منصوبہ سیلابوں کی شدت کو کم نہیں کر سکا بلکہ ہر سال ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے نہ صرف کے پی بلکہ پنجاب بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پنجاب میں ہونے والی بارشوں’ پہاڑوں سے بہنے والے پانی اور بھارت کی آبی جارحیت نے اس مرتبہ پنجاب میں بھی بڑی تباہی مچائی ہے۔ تقریباً 2300 دیہات ڈوب چکے ہیں اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بہہ گئی ہیں۔ اس سے ملک میں مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو سکتا ہے اگر حکومت نے فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف پیکیج جاری نہ کیا تو عوامی مسائل شدت اختیار کر سکتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here