پاکستان کی شکست کا ذمہ دار کون؟

0
183
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ہماری ٹیم کی بدقسمتی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ہم کبھی بھی کسی کھلاڑی کو اس کی کارکردگی کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہیں کرتے بلکہ جہاں اس پر تھوڑا سا بُرا وقت آتا ہے اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں، انتظار نہیں کرتے یا تو ہمارے پاس اس کھلاڑی کا کوئی متبادل ہو جو اس کی کمی کو پورا کر دے جیسا کہ بابر اعظم اور رضوان کیساتھ ہوا کچھ بھی کہہ لیں لیکن بابر اور رضوان کے ٹیم میں شامل ہونے سے سامنے والی ٹیم پر پریشر رہتا ہے، بابر کیساتھ رضوان کو بھی باہر رکھنا ٹی ٹوئنٹی سے یہ بہت بڑی زیادتی ہے رضوان تو تیز کھیلتا ہے یا تو اس کا مکافات عمل کہا جا سکتا ہے جو کچھ پچھلے دور میں سرفراز احمد کو ایک پلاننگ کیساتھ ٹیم سے باہر کیا گیا جبکہ بطور کپتان اس کی شدید ضرورت تھی اگر سرفراز احمد کو ٹیم سے باہر نہ کیا جاتا تو آج پاکستان ٹیم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا جس طرح انڈیا نے پاکستان کی ٹیم کو دونوں میچوں میں ٹھکانے لگایا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ان کی ٹیم بھی نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل تھی اس میں نہ ویرات کوہلی تھا اور نہ ہی ان کا کپتان روہت شرما تھا نہ جڈیجا تھا اس کے باوجود ان کے کھلاڑی ہر میدان میں ہمارے کھلاڑیوں سے زیادہ بہتر پرفارمنس دے رہے ہیں پہلے میچ میں اسکور کم تھا انڈیا نے آسانی سے رنز بنا لئے دوسرے میچ میں 172 رنز کا ٹارگٹ کوئی برا ٹارگٹ نہیں تھا لیکن ہمارے بائولروں نے حسب توقع جس طرح کی بائولنگ کی اور پہلی بال سے ہی نظر آگیا تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہونیوالا ہے، پہلی ہی بال پر ابھیشک شرما نے شاہین شاہ آفریدی کو چھکا مار کر اپنے عزائم بتا دیئے تھے،اور رہا سوال ہمارے مین بائولر جس پر ہماری پوری ٹیم کا انحصار ہوتا ہے، شاہین شاہ آفریدی جس کو عوام اور میڈیا نے اتنا پاپولر بنا دیا ہے کہ اس کو اپنی کارکردگی کی کوئی فکر نہیں اور نہ ہی ٹیم مینجمنٹ، کپتان اور سلیکٹرز کو ہے کہ آیا جس بائولر پر ہم اتنا زیادہ بھروسہ کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں میچ وننگ پرفارمنس سے میچ جتوائے گا جو لگتا نہیں کہ آنیو الے وقت میں کبھی دوبارہ ہوگا کیونکہ جس طرح کی پرفارمنس شاہین شاہ آفریدی پچھلے آٹھ دس میچوں میں دکھا رہا ہے اس کی باڈی لینگویج سے ہی پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ وہ مکمل فٹ نہیں ہے لیکن ہماری ٹیم مینجمنٹ اور سلیکٹرز کو نظر ہی نہیں آتا جبکہ جو بائولر ڈومیسٹک اور پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں وہ باہر صرف بینچ پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب ان کو پرفارمنس دکھانے کا موقع ملے، حسب توقع بیٹنگ میں بھی سیم سچویشن صائم ایوب کیساتھ ہے کہ ہم ہر میچ میں اس سے بہتر کارکردگی کی توقع کرتے ہیں مگر رزلٹ وہی حسب توقع کہ پندرہ بیس سکور کرنے کے بعد غلط شارٹ لگا کر اپنی وکٹ دے کر ٹیم کو پریشر میں ڈال کر خود باہر چلے جاتے ہیں، رہا ہمارے مین بائولر جس کو سپیشلسٹ سپنر کے طور پر کھلایا جا رہا ہے ابرار جو کہ فنگر بائولر ہے وہ بھی کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا، سوائے فہیم اشرف کے کوئی بھی بائولر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا۔ پوری دنیا کی کرکٹ کو دیکھ لیں ہر ٹیم کا کپتان پوری ٹیم کیلئے ایک اچھی مثال یا بہتر نمونہ ہوتا ہے جو اپنی کپتانی اور کارکردگی سے ٹیم کو جتواتا ہے، لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ جس کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی ہم اس کو کپتان بنا دیتے ہیں، سلمان علی آغا کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، وہ خود کو آلرائونڈر کہلواتے ہیں لیکن بیٹنگ میں بھی تسلسل کیساتھ ناکام چلے آرہے ہیں، رہا کپتانی کا سوال تو وہ صرف منہ میں چینگم چباتے ہی دیکھا جا سکتا ہے اس کی باڈی لینگویج سے لگتا ہی نہیں کہ ایک کپتان ٹیم کو لیڈ کر رہا ہے، وہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے نیٹ پریکٹس ہو رہی ہو اور وہ ٹیم کی کارکردگی کو مانیٹر کر رہا ہے۔ دوسری طرف محمد حارث جس نے ابھی تک صرف ایک ہی میچ میں سکور کیا ہے اور باقی میچز میں وہ ناکام رہا اور دوسری طرف اس کی وکٹ کیپری بھی کوئی خاص نہیں ہو رہی، اس نے انڈیا پاکستان کے میچ کے دوران دوسرے ہی اوور میں ابھیشک شرما جس نے اپنی کارکردگی سے پورے میچ کا نقشہ ہی بدل دیا اور 70 سے زائد رنز بنائے، صرف 15 سکور پر ایک اہم چانس رن آئوٹ کا مس کر دیا اگر وہ رن آئوٹ ہو جاتا تو شاید میچ کا رزلٹ کچھ اور ہوتا یا پھر پاکستان ہارتا تو اس طرح نہ ہارتا جس طرح پاکستان ہارا ہے، رہا پاکستان کے ایشیاء کپ کے فائنل میں پہنچنے کا اگر پاکستان ٹیم، کپتان، بائولرز اور بیٹسمینوں کی کارکردگی ایسی ہی رہی جس طرح وہ پچھلے دو تین میچوں میں کھیل رہے ہیں تو لگتا نہیں کہ پاکستان کی ٹیم فائنل کیلئے کوالیفائی کر پائیگی، کیونکہ ابھی پاکستان کا سری لنکا اور بنگلہ دیش کیساتھ میچ ہونا ہے دوسری طرف بنگلہ دیش کی ٹیم نے سری لنکا کی ٹیم کو شکست دے کر اپنے عزائم ظاہر کر دیئے ہیں، ہمارے ہیوسٹن کے مایہ ناز تجزیہ کار ساجد خان سے ہمیشہ یہی سوال رہا کہ پاکستان انڈیا سے نہیں جیت سکتا وہ تو اپنی پاکستان کی محبت میں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان جیت جائے گا ہم بھی دل سے یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان جیتے لیکن جو سچ بات ہے وہ یہی ہے کہ ابھی پاکستان کو بہت محنت کی ضرورت ہے،پاکستان ٹیم کی مینجمنٹ، کوچ اور کپتان کی عجیب منطق ہے کہ پہلے میچ میں تین سپیشلسٹ سپن بائولرز کو کھلا کر میچ کا دوسرا اوور نان ریگولر بائولر صائم ایوب سے کروایا، اور وہ تین وکٹ لے گیا ، لیکن سمجھ سے بالا تر ہے کہ تین مین سپن بائولر، ابرار، سفیان مقیم اور محمد نواز کو کھلانے کے باوجود وہ نان ریگولر بائولر سے بائولنگ کروا رہے ہیں، اور وہی ہوا حسب توقع دوسرے میچ میں بھی مین سپنرز کے باوجود صائم ایوب سے ہی اوور کروایا گیا کہ شاید آج بھی وہ وکٹ لے لیگا مگر وہ بری طرح ناکام رہا، صائم ایوب کی بیٹنگ کی ناکامی کو چھپانے کیلئے اس سے بائولنگ کروائی جا رہی ہے تاکہ وہ بائولنگ میں کامیاب ہو جائے اور ٹیم سے ڈراپ نہ ہو سکے، دوسری طرف ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ یا تو ہماری ٹیم بُری طرح فلاپ ہو جاتی ہے اور اگر بد قسمتی سے ہمیں اچھا سٹارٹ مل جائے تو ہم اس کو اختتام تک نہیں لے جا سکتے اور آخری اوورز میں سکور نہیں کر پاتے، یہی ہوا انڈیا کیساتھ دوسرے میچ میں ایک موقع پر جب دس اوورز میں ہماری ٹیم کا سکور 95 ہو گیا تھا ایک وکٹ کے نقصان پر تو اس وقت صائم ایوب نے اپنی وکٹ تھرو کی اور میچ کو نیچے لگوا دیا اس کے بعد کوئی بھی بیٹسمین سوائے فہیم اشرف کے کوئی بھی اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا ، اگر دیکھا جائے تو دس اوورز میں 95 سکور کے بعد اگلے دس اوورز میں پاکستان ٹیم کو کم از کم 100 سکور کرنا چاہیے تھا جس سے بھارت کی ٹیم پر پریشر ڈالا جا سکتا مگر ہمارے بیٹسمین بُری طرح ناکام ہوئے دوسری طرف کپتان صاحب اور کوچز کی کارکردگی سے حیرانگی ہوتی ہے کہ 15 اوورز ہو چکے تھے اور ہمارے چار کھلاڑی آئوٹ ہوئے تھے اور محمد نواز صاحب جس کی بیٹنگ سے لگتا تھا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ کھیل رہا ہے، صرف 13 گیندوں پر 7 سکور کئے تھے جبکہ اس وقت پاکستان ٹیم کو تیز کھیلنے اور بڑے شارٹس کھیلنے کی ضرورت تھی محمد نواز کی جگہ اگر فہیم اشرف یا شاہین آفریدی کو بھیجا ہوتا تو شاید اس کا رزلٹ بہتر ہوتا۔ دوسری طرف انڈیا کی ٹیم گیارہ کھلاڑیوں سے نہیں بلکہ 14 کھلاڑیوں کیساتھ کھیل رہی ہے، کیونکہ میدان میں موجود دو ایمپائر اور ٹی وی ایمپائر بھی انڈیا کی ٹیم کے کھلاڑی ہی لگتے ہیں کیونکہ ان کی طرف سے دیئے گئے فیصلے صرف انڈیا کے حق میں ہی ہوتے ہیں چاہے وہ گرائونڈ ایمپائر ہو یا ٹی وی ایمپائر، جیسا کہ پاکستان انڈیا کے میچ میں نظر آیا کہ سری لنکن ایمپائر جو پاکستان اور انڈیا کے پہلے میچ میں گرائونڈ ایمپائر تھے اس دن بھی اس ایمپائر کے چار فیصلے تھرڈ ایمپائر نے ناٹ آئوٹ قرار دیئے اور دوسرے پاک انڈیا میچ میں وہی ایمپائر تھرڈ ایمپائر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے تو انہوں نے رہی سہی کسر تھرڈ ایمپائر کے طور پر فخر زمان کے ناٹ آئوٹ کیچ جو کہ گرائونڈ پر لگ کر وکٹ کیپر سنجو سیمسن کے ہاتھوں میں گئی اور آئوٹ قرار دیدیا، اس وقت پاکستان کی پوزیشن بہتر تھی اور فخر زمان اچھا کھیل رہا تھا جس کا ڈر لگتا ہے ایمپائر کو بھی تھا کہ اگر اس نے آئوٹ نہ دیا تو کہیں وہ 2018 کی چیمپئنز ٹرافی کی طرح اس دفعہ بھی انڈیا کیخلاف اچھا کھیل کر ایک بڑا سکور کرنے میں کہیں کامیاب نہ ہو جائے، لہٰذا اس کو غلط آئوٹ قرار دیدیا جو کہ پوری دنیا میں اس وقت ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے کہ فخر زمان کا غلط آئوٹ دیا گیا جس کا باقاعدہ پاکستان کرکٹ بورڈ پی سی بی نے آئی سی سی سے شکایت بھی کر دی ہے، لہٰذا ہماری ٹیم مینجمنٹ، کھلاڑی اور کوچز کو چاہیے کہ ابھی سے اپنے آپ کو تیار کریں اور سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ہرا کر فائنل میں کوالیفائی کریں تاکہ فائنل میں ہمارا مقابلہ پھر بھارت کیساتھ ہو سکتا ہے جو لگتا نہیں کہ ہم فائنل میں پہنچیں گے اگر پہنچے تو پھر تو انڈیا کیساتھ ہی ہمارا مقابلہ ہونا ہے اور ابھی سے اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے اور بہتر کھیل پیش کرنا ہوگا۔ پچھلے دو میچوں میں جو غلطیاں کی گئیں ان کو بھلانا ہوگا اور غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرانا ہوگا، دوسری طرف ہمارے کپتان صاحب سلمان علی آغا صاحب کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے کہ وہ پاکستان ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں کسی لوکل کلب کے کپتان نہیں ہیں دوسری طرف پی سی بی کو بھی سوچنا ہوگا کہ ٹیم کا کپتان یا لیڈر ایسے کھلاڑی کو بنائیں جو گرائونڈ میں اپنی کارکردگی بھی دکھائے تاکہ باقی کھلاڑی اس کو مثال بنا کر بہتر کھیل پیش کر سکیں، اگر کپتان ہی اپنی کارکردگی نہیں دکھائے گا تو ٹیم کا تو اللہ ہی حافظ ہے، اگر پاکستان ٹیم کے بیٹسمینوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو محمد رضوان اور بابر اعظم کی واپسی ضروری ہو گئی ہے ہمارے چیف سلیکٹر عاقب جاوید اور کپتان صاحب کی چھٹی کرانا ہوگی ، شعیب اختر یا وسیم اکرم کو چیف سلیکٹر بنانا چاہے تاکہ ہماری ٹیم سے پرچی ازم کا خاتمہ ہو سکے، اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے، محسن نقوی چیئرمین پی سی بی کو تو کئی نہیں ہٹا سکتا جب تک فیلڈ مارشل عاصم منیر کی حمایت حاصل ہے، ٹیم میں تبدیلیاں بہت ضروری ہیں، محمد حارث کی جگہ کوئی اور وکٹ کیپر بیٹسمین لانا ہوگا، محمد عثمان جو کہ یو اے ای کی طرف سے کھیلتا تھا اس کو پاکستان کی ٹیم میں آنا مہنگا پڑ گیا کیونکہ وہ نہ تو پاکستان ٹیم میں مستقل جگہ بنا سکا اور یو اے ای کی ٹیم سے بھی باہر ہو گیا ہے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here