بھارتی ہٹ دھرمی اورپی سی بی کی سرجری!!!

0
82
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ایشیا کپ کے فائنل میں بھارت کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی ایک اور شکست سے شائقین کے چہرے مرجھا گئے، گروپ مرحلے اور پھر سپر فور راونڈ میں گرین شرٹس کی شکست کے بعد شائقین کو امید تھی کہ فائنل میں وہ بھارت سے اگلے پچھلے تمام حساب چکتا کرلیں گے مگر حسب معمول روایتی حریف کے ہاتھوں ہارنے کی روایت نہیں ٹوٹی۔ بیٹنگ لائن نے اس بار بھی انتہائی مایوس کیا، صرف 3 بیٹرز ہی ڈبل فیگر میں پہنچ پائے، صائم ایوب بطور بیٹر مسلسل ناکام ثابت ہوئے اور ٹیم مینجمنٹ بھی انھیں مسلسل موقع دیتے رہی، فیصلہ کن میچ میں بھی وہ اپنی وکٹ انتہائی کم رنز پر گنوا کر ٹیم کو مشکلات کا شکار کرگئے۔ بھارت نے تلک ورما کی شاندار بیٹنگ کی بدولت ایشیا کپ کے فائنل میں دلچسپ مقابلے کے بعد پاکستان کو 5 وکٹوں سے شکست دے دی، لیکن بھارتی ٹیم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایشین کرکٹ کونسل کے صدر اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے ایشیا کپ کی ٹرافی لینے سے انکار کیا، یوں بھارتی ٹیم کو نہ تو میڈلز ملے اور نہ ہی چیمپئن کا بورڈ دیا گیا۔ دوسری جانب بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی ٹوئٹ میں کھیل کو آپریشن سندور سے تشبیہ دے کر واضح کیا کہ بھارت کے لیے یہ میچ کھیل نہیں، ایک جنگی بیانیہ تھا۔ یہ واقعہ اگرچہ اسپورٹس کی دنیا میں نمایاں حیرت کا باعث بنا ہے، مگر اس کے پسِ پردہ تہذیب، اخلاق، سیاست اور کھیل کی روح کے وہ موضوعات ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ بھارتی ٹیم کا ایشیائی کرکٹ کونسل (ACC) کے صدر اور پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) کے چیئرمین محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار ایک نہایت سنگین اور علامتی اقدام ہے، جس نے عالمی کرکٹ کی روایات اور کھیل کے اخلاق کو ایک بار پھر سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک انعامی تقریب سے زیادہ ہے، یہ اظہارِ عزائم، وقارِ قومی تشخص، سفارتی کشاکش اور کھیل کے اندر سیاست کی مداخلت کا شدید عکس ہے۔ پاکستان بھارت کرکٹ میچ میں عوامی جذبات قابل دید ہوتے ہیں۔ دونوں طرف عوام اس میچ کو جنگ سے کم نہیں سمجھتے۔ ہار کسی کو بھی برداشت نہیں۔ اسی لیے اس میچ کو دنیا کا سب سے مہنگا میچ بھی کہا جاتا ہے۔ عوام کے انھی جذبات کی وجہ سے پاک بھارت کرکٹ میچ دونوں طرف عوام کی خاص توجہ کا حامل ہوتا ہے۔ کسی اور کھیل کو عوام کی یہ توجہ حاصل نہیں۔ اس لیے ایک عوامی رائے یہی ہے کہ پاک بھارت کرکٹ میچ کسی جنگ سے کم نہیں ہوتا، عوام کے جذبات جنگ سے کم نہیں ہوتے۔ حالیہ ایشیا کپ میں ہم نے دیکھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم جنگ کے ماحول کو کھیل کے میدان میں لے آئی۔ اس سے پہلے جنگ کا یہ ماحول عوامی شائقین میں تو تھا لیکن کھلاڑی اور کھیل اس میں شامل نہیں تھا۔ کھیل کو کھیل کے انداز میں ہی کھیلا جاتا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک دوسرے کے دوست بھی ہوتے تھے۔ میچ کے بعد دوستیاں بھی ہوتی تھیں۔ کھیل میں اسپورٹس مین اسپرٹ کو برقرار رکھا جاتا تھا۔ عوام ہار اور جیت پر جذباتی ہوتے تھے لیکن کھلاڑی اور حکومتیں اس کا حصہ نہیں بنتی تھیں۔ لیکن شاید اب ایسا نہیں ہے، اب جنگ کھیل کے میدان میں پہنچ گئی ہے۔ کھلاڑی کھلاڑی نہیں رہے جنگجو بن گئے ہیں۔ بھارتی ٹیم اس دفعہ ایشیا کپ میں جنگ کا موڈ لے کر ہی آئی تھی۔ انھوں نے پاکستانیوں سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ پہلا میچ جیت کر بھارت کے کرکٹ ٹیم کے کپتان نے کھیل کے بجائے پاک بھارت جنگ پر گفتگو کی۔ انھوں نے اپنی جیت کو اپنے جنگی ہیروز کے نام کرنے کا اعلان کیا۔ یہ صاف اشارہ تھا کہ یہ میچ نہیں جنگ کا تسلسل ہے۔ اب ایشیا کپ جیت کر انھوں نے پی سی بی چیئرمین جو ایشیا کرکٹ کے سربراہ بھی ہیں، ان سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔ صاف مطلب ہے کہ جو ٹرافی انھیں پاکستان کے وزیر سے لینی پڑے، انھیں یہ ٹرافی بھی قبول نہیں۔ آپ بے شک کہیں یہ کوئی اچھی مثال نہیں لیکن اب قائم ہو گئی ہے۔ اب اچھی اور بری کی بحث ختم ہو گئی ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نے ایشیا کپ کا فائنل جیتنے کو آپریشن سندور کا تسلسل کہا ہے۔ نریندر مودی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آپریشن سندور کھیل کے میدان میں پہنچ گیا ہے۔ نتیجہ وہی ہے، بھارت جیت گیا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مودی بھارت میں مشکل میں ہیں۔ مودی پہلے دن سے کرکٹ کو کھیل نہیں سمجھ رہے۔ اسی لیے مودی نے پاک بھارت کرکٹ سیریز معطل کر رکھی ہیں۔ انھوں نے بین الاقوامی مقابلوں کے لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی۔ جواب میں پہلے تو پاکستانی ٹیم بھارت جاتی رہی۔ لیکن اب پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم بھارت نہیں جائیں گے۔ اس لیے اب دونوں ٹیموں کے مقابلے نیوٹرل مقام پر ہی ہوتے ہیں۔ اور اس طرح دونوں ٹیموں کے درمیان میچ بہت کم ہوگئے ہیں۔ صرف آئی سی سی کے مقابلوں میں ہی دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھیلتی ہیں۔ یہ میچز بھی ایشیا کپ کے ہی تھے۔ ایشیا کپ میں کرکٹ کی تاریخ کا پہلا بدترین موقع ہے کہ ٹورنامنٹ جیتنے کے باوجود بھارتی ٹیم کی ہٹ دھرمی برقرار رہی، پورے ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم کا پاکستان ٹیم کے ساتھ جو رویہ رہا وہ انتہائی نامناسب تھا، پہلے بھارتی کھلاڑیوں نے ہینڈ شیک نہیں کیا، پھر ٹرافی کے ساتھ فوٹو سیشن نہیں کیا، ٹورنامنٹ کے دوران بھارتی کپتان نے ایک سیاسی پریس کانفرنس کی، اس طرح وہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلے بھارتی کپتان ٹھہرے، جو کھیل میں سیاست لے کر آئے ہیں۔ ٹورنامنٹ کے دوران بھارتی ٹیم کے کپتان سوریا کمار یادیو کو سیاسی پریس کانفرنس کرنے پر جرمانہ بھی ہوا لیکن انھوں نے فائنل میچ کے بعد ایک بار پھر پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ وہ ایشیا کپ میں کھیلے گئے اپنے تمام میچز کی فیس بھارتی فوج کو دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی کانگریس رہنما اور سابق وزیر ششی تھرور نے ایشیا کپ میں پاک بھارت میچز میں ہینڈ شیک تنازع پر گفتگو کرتے ہوئے کھیل اور سیاست کو الگ الگ رکھنے کا مشورہ دے دیا۔ دوسری طرف حالیہ پورے ایشیاء کپ میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی پوری دنیا کیساتھ پاکستانی قوم اور سابقہ سینئر کھلاڑیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ جو حال ہماری ٹیم کا ہو چکا ہے وہ لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی کلب لیول کی ٹیم پرفارم کر رہی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم مسلسل کئی سال سے بری کارکردگی دکھا رہی ہے۔ پی سی بی کی کرکٹ کی چھوٹی اور بڑی سرجری ناکام ہو گئی ہے، تمام تبدیلیاں اور تدبیریں ناکام ہو گئی ہے۔ فائنل میں شکست کے ساتھ ایشیا کپ میں بھارتی ٹیم کے ہاتھوں ناکامیوں کی بھی ہیٹ ٹرک ہوگئی، بیٹنگ لائن فیصلہ کن معرکے میں بھی توقعات کا بوجھ نہیں اٹھاسکی، صرف 3 بیٹرز ہی دہرے ہندسے میں داخل ہوسکے، مسلسل مواقع پانے والے صائم ایوب آخری میچ میں بھی ٹیم کی مشکلات میں اضافہ کرکے واپس لوٹ گئے، جواب میں بولرز بھارتی ٹیم پر ابتدا میں ڈالا گیا دبائو برقرار نہیں رکھ پائے،دوسری طرف قومی ٹیم کی فیلڈنگ بھی انتہائی ناقص رہی جس میں حسین طلعت نے سنجو سیمسن کا انتہائی آسان کیچ ڈراپ کیا تو دوسری جانب وکٹوں کے پیچھے کردار ادا کرنے والے اہم کھلاڑی وکٹ کیپر محمد حارث جو کہ اپنی باڈی لینگویج سے کہیں سے بھی وکٹ کیپر نہیں لگتے کیونکہ کسی بھی ٹیم کا وکٹ کیپر اس ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ محمد حارث تو قومی ٹیم کا درد سر لگتا ہے کیونکہ جب بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بیٹنگ کرے تو وہ بے تکا سا شارٹ لگا کر اپنی وکٹ دے کر واپس پویلین چلا جاتا ہے اور جب گرائونڈ میں فیلڈنگ میں اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ وکٹ کیپنگ بھی نہایت ہی سست اور کاہلی کیساتھ سر انجام دیتا ہے جس کا فائدہ مد مقابل ٹیم کو بھرپور فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ آسانی کیساتھ میچ کو جیت پائے یہی کام محمد حارث نے فائنل میچ کے دوران کیا جب اس کی ضرورت تھی کہ وہ بیٹنگ میں پاکستان ٹیم کو فائدہ پہنچاتا تو وہ ایک نہایت بچگانہ شارٹ کھیلتے ہوئے آئوٹ ہو گیا اور فیلڈنگ کے دوران نہایت آسان رن آئوٹ جو کہ میچ وننگ یا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا تھا یعنی جس انڈین کھلاڑی تلک ورما نے ناٹ آئوٹ رہ کر اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا وہ اس وقت آئوٹ ہو جاتا جب محمد حارث کو چانس ملا اس کو رن آئوٹ کرنے کا توہ ناکام رہا، جس کا فائدہ تلک ورما نے اپنی ٹیم کو منزل تک پہنچاکر اٹھایا۔ دوسری طرف قومی ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا کی کارکردگی پورے ایشیاء کپ میں جو انہوں نے دکھائی وہ پوری دنیا کے سامنے ہے، کسی بھی ایک میچ میں چاہے وہ میچ پاکستان جیتا ہو یا ہارا ہو کپتان کا کوئی کردار نظر نہیں آیا نہ ہی بیٹنگ کے دوران اور نہ ہی فیلڈنگ کے دوران ، اسی طرح ہمارے بڑے ہی کار خاص یعنی پرچی بائولر حارث رئوف جو اپنی باڈی لینگیوج سے فاسٹ بائولر لگتے ہی نہیں ان کو پی سی بی سر پر چڑھایا ہوا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سلیکٹر صاحب عاقب جاوید کے بڑے ہی چہیتے لگتے ہیں کیونکہ حارث رئوف کی کارکردگی جیسی بھی ہو وہ ٹیم سے ڈراپ نہیں ہوتا، لگتا ہے کہ اس نے کوئی تعویذ گھول کر سلیکٹر صاحب کو پلا دیا ہے جو وہ باہر نہیں بیٹھتے اور جو بائولر یعنی جو کارکردگی دکھاتے ہیں وہ بائولر باہر بینچ پر بیٹھے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب ان کی باری آئے گی، یعنی وسیم جونیئر جو پورے ایشیاء کپ کے دوران باہر ہی بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے کہ کب کپتان یا سلیکٹر ان کو کھیلنے کا موقع دیتے ہیں، اگر دیکھا جائے قومی ٹیم میں دو نام ایسے ہیں جو کہ ہم نام ہیں ، یعنی محمد حارث، اور حارث رئوف ، جب کسی بھی ٹیم کے کھلاڑی اپنی ہی ٹیم کیخلاف کارکردگی دکھائیں تو باقی پلیئر جتنی بھی اچھی کارکردگی دکھا لیں وہ ٹیم مشکل سے ہی جیت سکتی ہے، اور سونے پر سہاگہ والی مثال ہو، کہ جس ٹیم کا کپتان ہی اپنی ٹیم کیخلاف اپنا کردار ادا کرے تو وہ ٹیم تو جادو کی چھڑی سے ہی جیت سکتی ہے، یعنی کے سلمان علی آغا جیسے کپتان جس بھی ٹیم میں ہوں میرا نہیں خیال کہ وہ ٹیم کبھی میچ جیت سکے، پچھلے سال جب قومی ٹیم کی کارکردگی حسب توقع یہی تھی تو پی سی بی کے چیئرمین یعنی محسن نقوی صاحب نے کہا تھا کہ جی ٹیم کی سرجری ہوگی، اور سرجری ایسی کی گئی کہ بڑے کھلاڑیوں کو باہر بٹھانے سے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ ٹیم تبدیل کرنے کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ پی سی بی کی بھی سرجری ہونی چاہیے تاکہ آئندہ آنے والے میچز میں قومی ٹیم کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ پی سی بی کے سارے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے اب احتساب کا وقت ہے ہارنے کے اسباب پر بات کرنے کا وقت ہے۔ بھارت کی مذمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ دس سال سے یہی کر رہے ہیں۔ وہ کھیل کو جنگ ہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ ہم سے نہیں کھیلتے۔ ہمیں اپنی ہار کے تسلسل کو ختم کرنا ہے، اسی میں پاکستان کی عزت ہے۔ عوام بھی جیت مانگتی ہے ۔ ہار ہار کر لوگ بھی تنگ آگئے ہیں۔ ہر بار پاکستان کے عوام کا دل توڑا جاتا ہے۔ لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ پی سی بی کو ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی کہ ٹیم جیت سکے۔ عوام کو کسی خاص کھلاڑی سے کوئی لگائو نہیں۔ آپ نے بڑے نام باہر بٹھائے لوگوں نے قبول کیا ہے۔ لیکن اب اگر پی سی بی کے پاس بھی جیت کا کوئی نسخہ نہیں۔ تو پھر پی سی بی کے احتساب کا بھی وقت ہے۔ ٹیم کے ساتھ ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ سلیکٹرز کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ پی سی بی کے فیصلہ سازوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ کیونکہ بھارت کو سبق جیت کر ہی سکھایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہم نے جنگ کے میدان میں جیت کر سبق سکھایا ہے، ایسے ہی کرکٹ کے میدان میں جیت کر ہی سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ درس و تدریس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی ادارے اور کھیلوں کی تنظیمیں اس بیانیے کا نوٹس لیں جو کھیل کے تقدس کو پامال کر رہا ہے۔ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے، اسے سیاسی یا عسکری مفادات کا ایندھن نہ بنایا جائے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here