فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! پیرو مرید کا تعلق بڑا نازک ہے لہٰذا پہلی بات ہے ہی یہ کہ پیرو مرشد دیکھ پرکھ کر پکڑنا چاہیئے۔ جب مکمل طور پر اطمینان قلب ہو جائے تو پھر ہاتھ دیا جائے۔ کرامات کی بہتات نہیں چاہئے بلکہ شریعت مطھرہ کی پابندی چاہئے۔ آج کل کباس خضر میں رہزنوں کی بہتات ہے۔ جیسے طوطا اپنے سبز رنگ سے فائدہ اٹھا کر باغ کو خوب اجاڑتا ہے اور مالی کو پتہ نہیں چلنے دیتا۔ اس طرح یہ بہرویئے پیر لباس خضر پہن کر شریعت مطھرہ کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔ باقی حقیقت میں تو اپنی آخرت ہی تباہ کرنی ہے۔ شریعت کا کیا جائے گا۔ باقی جو بھولا بھالا بن کر ان کے پیچھے لگے گا نقصان کا ذمہ دار خود ہوگا۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور آپ کے مریدین نے لوگوں کو پیری مریدی کو کاروبار بنانے سے منع فرمایا: آپ رضی اللہ عنہ نے خود بھی شریعت مطھرہ کی پیروی کی اور مریدین کو بھی اس کا پابند کیا آپ رضی اللہ عنہ کے مریدین میں بڑے بڑے اہم نام ہیں ایک نام جانشین محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کا بھی ہے جو فنافی اللہ، فنافی الرّسول علیہ الصّلواة والسّلام اور فنافی الشیخ کے مقام پر فائز ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی گفتار، کردار اور رفتار سے عشق مصطفیٰ علیہ الصّلواة والسّلام کی خوشبو آئی تھی۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر میرا مرید نیک نہ بھی ہو تو بھی اس کے لئے کافی ہوں۔ خدا کی قسم! میرا ہاتھ میرے مرید پر ہے اگرچہ میرا مرید مغرب میں اور میں مشرق میں ہوں۔ خواہ وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو میرا ہاتھ اس کے سر پر ہے۔ اور اگر میرا مرید ننگا ہوجائے یعنی کوئی خطا کر بیٹھے تو میں دور دراز سے ہاتھ لمبا کرکے اس کی خطا پر پردہ ڈال دیتا ہوں۔ خدا کی قسم! میں قیامت کے دن دوزخ کے دروازے پر کھڑا رہوں گا یہاں تک کہ میرے سب کے سب مرید گزر جائیں گے۔ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تیرے کسی مرید کو دوزخ میں نہیں ڈالوں گا پس جو کوئی اپنے آپ کو میرا مرید کہے میں اسے قبول کرکے اپنے مریدوں میں شامل کرتا ہوں اور اس کی طرف توجہ رکھتا ہوں۔ میں نے منکر نکیر سے اس بات کا عہد لیا ہے کہ وہ میرے مرید کو قبر میں نہ ڈرائیں گے۔ بس اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے جب اس کی عبادت وریاضت کرکے ناز کے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے ان کی طرف توجہ فرماتا ہے لہذا اس میں اعتراض کی کوئی ایسی بات نہیں جو شخص پانچ نمازیں بھی پوری طرح نہیں پڑھ سکتا قرآن پاک کی تلاوت کا حق نہیں ادا کرسکتا وہ اسی ہستی کو جو چالیس سال نماز عشاء کے وضو سے تہجد کی نماز اور پھر فجر کی نماز ادا کرتی رہی اپنے اوپر قیاس نہیں کرسکتا۔ یعنی جب بھی کچھ نہیں کرسکتا تو غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی اتنی دسترس کیسے ہوگئی۔ کرامات کا ظہور ہونا تو قرآن پاک سے ثابت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے امتی حضرت آصف بن برخیا نے سینکڑوں میل کے فاصلے سے ملکہ بلقیس کا تخت پلک جھپکنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے دربار میں حاضر کرکے جنات جیسی مخلوق کو بھی ششدر کردیا۔ یقیناً جو دینی طالب علم اپنے اسلامی استاد پر اور جو مرید اپنے پیرو مرشد پر اعتراض کرتا ہے وہ فیضان علم ومعرفت سے محروم رہتا ہے بلکہ ہلاکت کے عمیق(گہرے) گڑھے میں جا پڑتا ہے۔ چنانچہ میرے آقا، اعلیٰ حضرت، امام اہل سنت، ولیٰ نعمت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، شیخ الاسلام والمسلمین، مجدد دین وملت، حامی سنت، ماحی بدعت، عالم شریعت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں۔ پیروں پر اعتراض سے بچے کہ یہ مریدوں کے لئے زہر قاتل ہے کم کوئی مرید ہوگا جو اپنے شیخ پر اعتراض کرے پھر فلاح(کامیابی) پائے۔ شیخ کے تصرفات سے جو کچھ اسے صحیح معلوم نہ ہوتے ہوں ان میں خضر علیہ الصّلواة والسّلام کے واقعات یاد کرے کیونکوہ ان سے وہ باتیں صادر ہوتی ہیں بظاہر جن پر سخت اعتراض تھا جسے مسکینوں کی کشتی کا نیچے والا تختہ اکھاڑنا اور بے گناہ بچے کو قتل کردینا پھر جب وہ اس کی وجہ بتاتے تھے تو ظاہر ہو جاتا تھا کہ حق یہی تھا جو انہوں نے کہہ دیا۔
یوں ہی مرید کو یقین رکھنا چاہیئے کہ شیخ کا جو فعل مجھے صحیح معلوم نہیں ہوتا شیخ کے پاس اس کی صحت پر دلیل قطعی ہے حضرت سیّدنا امام قشہری رضی اللہ عنہ اپنے دو سالہ قشیر یہ میں فرماتے ہیں میں نے حضرت سیّدنا ابوعبد الرّحمن سلمی رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا: ان سے ان کے شیخ حضرت ابوسہل صَحّلو کی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو اپنے پیر سے کسی بات میں ”کیوں” کہے گا کبھی فلاح نہ پائے گا حضور شمس المشائخ قاضی محمد فضل حیدر رضوی رضی اللہ عنہ بیک وقت فیضان قادریہ اور فیضان چشتیہ کے قاسم تھے۔ باقی تمام سلاسل میں بھی بیعت کی اجازت رکھتے تھے اور اپنے خلفاء کو بھی تمام سلاسل میں بیعت کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ درود شریف اسم اعظم آپ رضی اللہ عنہ کا بہت ہی مجرب وظیفہ تھا۔ اپنے شیوخ کے مکمل طور پر نقش قدم پر تھے۔ سخاوت، عبادت، ریاضت اور زیڈ تقویٰ کے پیکر تھے۔ اور مریدین کو دوست سمجھتے اور بلاتے تھے اور سب ساتھیوں کے ساتھ ہر طرح کی ہمدردی خود بھی فرماتے اور تلقین بھی فرماتے کہ ایک دوسرے کا مکمل خیال رکھا کرو۔ تنگ دست ساتھیوں کی خود بھی خفیہ طور پر مدد فرماتے اور مریدین کو بھی حکم فرماتے۔ یہی مہربانیاں اور سخاوتیں اور ہمدردیاں قائد ملت اسلامیہ پیر طریقت، رہبر شریعت قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی، زہد مجدہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدّث اعظم پاکستان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ بزرگوں کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭












