محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے جہاں تک تعلق نکاح جیسے زندگی کے اہم فیصلے کا ہے بہت سی باتوں کے ساتھ اس کو آسان بنایا جائے اور نوجونواں کو جو آجکل ڈاکٹر حکیموں کے چکر یا گندی موویز کے چکر میں رہتے ہیں انکو پھر ویسی ہی خرافات بھی سوجھتی ہیں جہاں تک تجربہ و مشاھدہ رہا مردانہ قوت مردمی کے حساب سے مرد یا تو مرد یا یا وہ نامرد ہے جو پیدائشی یا کچھ طبی وجوہات کی وجہ سے ہوتا ہے یہ مردانہ کمزوری کہاں سے ایجاد ہوء مجھے معلوم نہیں کسی سیانے حکیم کے دماغ کی اختراع لگتی ہے یہی وجہ خراب سوسائٹی ماحول اور خراب دوستوں کی صحبت بڑوں سے نصیحت نہ لینا ان سے مشورے نہ کرنا جسکا نقصان نوجوان نسل کو اٹھانا پڑرہا ہے اس وجہ سے بہت سے گھرانے پر یشانیوں کا شکار رہتے ہیں وہ وقت جو کسی خوشیوں کا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے قریب آنے کا ایک دوسرے کو سمجھنے کا اس قیمتی وقت کو اور مختصر زندگی کو برباد کردیا جاتا ہے مجھے حکیم شاھد صاحب کی وال پر عجیب و غریب کہانی پڑھنے کو ملی سوچا آج اس بات کو ہی موضوع بحث بنایا جائے۔ شادی کی پہلی رات (ویگرا کیپسول)نے رشتہ خطرے میں ڈال دیا! جادو کا کیپسول نہیں رشتے کی بربادی کی شروعات! شادی کے دن خوشی، خواب، اور امیدوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہر نیا جوڑا چاہتا ہے کہ اس کی زندگی محبت، اعتماد اور سکون سے بھر جائے۔ لیکن آج کا دور! جہاں سب کچھ جلدی چاہیے، وہاں شادی کا رشتہ بھی مصنوعی کیپسول پر آزمایا جا رہا ہے۔ کہانی ہر گھر کیاحمد ایک پڑھا لکھا، سمجھدار نوجوان تھا۔ شادی کے دن سب کچھ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ مگر ایک دوست نے کہا، یار! پہلی رات ہے نا یہ ویگرا کیپسول لے لو، بیوی بہت خوش ہو جائے گی! احمد نے سوچا شاید یہ کوئی عام طاقت بڑھانے والی دوا ہوگی، اس نے بغیر سوچے وہ ویگرا کیپسول کھا لیا۔ شروع میں جوش بڑھا، مگر کچھ ہی لمحوں میں دل کی دھڑکن تیز، جسم کانپنے لگا، چہرہ سرخ، اور دماغ سن ہونے لگا۔ مریم پریشان ہو گئی کیا ہوا آپ کو؟ سب ٹھیک تو ہے؟ احمد خاموش تھا کیونکہ اس کا اعتماد مر چکا تھا۔ چند لمحوں کے وقتی جوش نے اس کی پوری ازدواجی زندگی کی بنیاد ہلا دی۔ یہ کوئی کہانی نہیں، حقیقت ہے! آج لاکھوں مرد ویگرا یا کیمیکل والے کیپسول کے عادی بن چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یہ طاقت ہے، حالانکہ یہ صرف وقتی دھوکہ ہے۔ ایسے کیپسول دل، دماغ اور اعصاب پر برا اثر ڈالتے ہیں۔ دل کی دھڑکن بے قابو، سانس پھولنا، دماغی دبا، اعتماد کی کمی یہ سب انہی دوائیوں کا نتیجہ ہیں۔ کئی نوجوان اپنی نادانی میں مردانگی نہیں، بیماری خرید لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے: قدرتی علاج کمزور نہیں کرتا بلکہ مضبوط بناتا ہے۔ جو دوائیں دیسی جڑی بوٹیوں، ہربل اجزا اور قدرتی نسخوں سے بنتی ہیں، وہ دل، دماغ، اور جسم تینوں کو متوازن رکھتی ہیں۔ یہ وقتی جوش نہیں، پائیدار سکون دیتی ہیں۔ حکمت کہتی ہے: اگر کمزوری ہو تو عارضی کیپسول نہیں، بلکہ مستقل علاج اختیار کرو۔ کیونکہ علاج وقت سے پہلے کر لو تو رشتہ بچ جاتا ہے، اور اگر دیر کر دی تو رشتہ احساس سے خالی ہو جاتا ہے۔
حکیم شاہد صاحب کہتے ہیں:
“مردانگی کی طاقت کیپسول سے نہیں، اعتماد، غذا اور ذہنی سکون سے آتی ہے۔
ویگرا نہیں، دیسی ہربل علاج آزما
کیونکہ فطرت میں جو طاقت ہے، وہ کسی دوائی میں نہیں!”
قدرتی طاقت کے اصول:
روزانہ متوازن غذا (شہد، بادام، اخروٹ، پھل، سبزیاں)
روزانہ 30 منٹ واک
ذہنی سکون، نیند، نماز اور دعا
بیوی یا شوہر سے محبت بھری گفتگو
اور اگر کمزوری ہو تو دیسی، ہربل مستقل علاج کروائیں
کیپسول پر نہیں، اعتماد پر زندگی گزاریں
بات شروع ہوء تھی نکاح کی آسانی سے اس میں کیا مشکلات آرہی ہے کچھ تبادلہ خیال اس بابت بھی ہوجائے تو ایک آپ بیتی پڑھئیے میری نہیں یہ کہانی انٹرنیٹ کی ہے پڑھیں اور حقیت جان کر محظوظ ہوں
لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ صرف لڑکیوں کے رشتوں کے معاملے میں ماں باپ کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے، کیونکہ لڑکے والوں کے نخرے زیادہ ہوتے ہیں، اور اکثر لڑکوں والوں کے یہی نخرے کسی لڑکی کی شادی میں تاخیر کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ بات بظاہر درست لگتی ہے، لیکن حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے۔بات کچھ تلخ ہے لیکن یقین جانیں، جتنا مشکل کام ایک لڑکی کے لیے مناسب رشتہ تلاش کرنا ہوتا ہے، اتنا ہی بلکہ کئی بار اس سے بھی زیادہ مشکل کام لڑکے کے لیے رشتہ ڈھونڈنا ثابت ہوتا ہے۔ آج کے دور میں لڑکیوں والوں کے بھی نخرے کسی طرح کم نہیں، اور بہت سی لڑکیوں کی شادیوں کی عمر ان کے اپنے یا اپنے گھر والوں کے نخروں کی وجہ سے گزرتی ہے
مجھے اس حقیقت کا ادراک تب ہوا جب میں نے اپنے بھائی کے لیے رشتہ تلاش کرنا شروع کیا۔ شروع میں مجھے بڑی غلط فہمی تھی کہ ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ آخر بھائی کے پاس یورپین نیشنلٹی تھی، چھ فٹ قد، گورا رنگ، اور گھرانہ بھی الحمدللہ اچھا خاصا اور ہم نے تو پہلے سے ہی طے کر لیا تھا کہ لڑکی کی شکل و صورت، قد کاٹھ میں سے کوئی نقص نہیں نکالنے نا جی ہیز کی ڈیمانڈ کرنی ہے ۔ بس اتنا دیکھنا ہے کہ لڑکی شریف اور سمجھ دار گھرانے سے ہو۔
لیکن جب رشتہ تلاش کا سلسلہ شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ حالات ہماری توقعات سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم نے ہر میٹرک پاس، ہر شریف، اور اپنے سٹیٹس سے کم خاندانوں کے رشتوں تک کو بھی ہاں کی، مگر ہر جگہ سے جواب نہ کی صورت میں ملا۔ اور وہ بھی صرف اس لیے کہ بھائی گنجے تھے۔ ہاں ان کے بال کم تھے اور اٹلی میں رہتے ہوئے وہ خود اپنے سر کے بال صاف شیو رکھتے تھے،
بھائی اس وقت اڑتیس سال کے تھے، مگر اپنی عمر سے کم از کم دس سال چھوٹے لگتے تھے۔ آج وہ پچاس کے قریب ہیں، مگر آج بھی کوئی انہیں پینتیس سے اوپر کا نہیں کہہ سکتا۔ ہم نے ان کی عمر کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور کئی رشتے ان کی برابر کی عمر کی لڑکیوں کے دیکھے یہاں تک کہ ایک طلاق یافتہ مگر شریف اور قبول صورت لڑکی کے لیے بھی ہاں کی، مگر وہاں بھی جواب یہی آیا کہ “لڑکا گنجا ہے”۔
رشتے والے نے ہمیں زیادہ تر رشتے گاں میں رہنے والوں کے ہی دکھائے تھے لیکن ان کی ڈیمانڈ تھی کہ ان کو شہر میں اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے
ہم نے بتایا بھی کہ لڑکی نے بھائی کے ساتھ ہی اٹلی جانا ہے پیپر بننے کے بعد
لیکن ان گاں کے رہنے والوں کو گاں میں رشتہ کرنے پہ
اعتراض تھا حالانکہ ان کے گھر اس طرح کے بنے ہوئے تھے کہ شہر تو دور کی بات ہے گاں میں سے بھی کوئی ان کے گھر رشتہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتا لڑکیاں بھی زیادہ تر میٹرک پاس یا انٹر پاس تھیں
یہ بات حقیقت پسند ہو کے کہہ رہی ہوں بے شک کہتے ہوئے) مجھے بھی اچھا نہیں لگ رہا )
یوں یہ رشتہ ڈھونڈنے کا سفر ہمارے لیے ایک نیا تجربہ بن گیا، جس نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ معاشرے میں صرف لڑکے والوں کے نخرے نہیں ہوتے، بلکہ اکثر اوقات لڑکیوں اور ان کے گھر والوں کے نخرے زیادہ ہوتے ہیں۔
آخرکار اللہ کے کرم سے بھائی کا رشتہ ایک بہت اچھی جگہ ہو گیا، اور اب ان کی شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں ان کی ایک پیاری سی بیٹی ہے ماشااللہ اور ان کی بیوی اور بیٹی ان کے ساتھ اٹلی میں ہی رہتے ہیں ۔کرونا کی وجہ سے بھابھی کے پیپر بننے میں تھوڑی دیر ہو گئی تھی لیکن تین سال بعد وہ بھائی کے پاس اٹلی چلی گئیں تھیں اور جب تک وہ پاکستان بھی رہی تھی وہ زیادہ تر اپنے میکے ہی رہی تھی ہماری طرف سے کوئی زبردستی نہیں تھی کہ وہ ہمارے ساتھ رہیں اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں بھی اور وہی رشتہ دکھانے والا اب کبھی کبھار بتاتا ہے کہ جن لڑکیوں کے رشتے اس وقت ہمیں دکھائے گئے تھے، ان میں سے کچھ آج بھی غیر شادی شدہ ہیں کیونکہ کبھی انہیں لڑکا پسند نہیں آتا، کبھی اس کی نوکری یا گھرانہ۔
اس لیے ہمارا تجربہ تو یہی رہا کہ لڑکی کی شادی میں رکاوٹ صرف لڑکے والوں کی ڈیمانڈز کی وجہ سے نہیں بلکہ لڑکی والوں کی ڈیمانڈ کی وجہ سے بھی ہوتی ہے ۔کئی لڑکیوں کی شادیوں کی عمریں اس وجہ سے گزر چکی ہیں ۔اس لیے دونوں طرف ہی ایسی صورتحال ہے
مین دعا کرتا ہوں شادی اور اس سے جڑے مسائل لوگوں کیلئے آسان ہوں آمین
٭٭٭















