جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
گزشتہ کافی عرصے سے ہم پاکستانی سیاست و نظام ریاست و مملکت کے حوالے سے اپنی گذارشات اور خیالات قارئین تک پہنچاتے رہے ہیں اور پاکستان کے داخلی و خارجی معاملات پر خصوصاً بھارت کے پاکستان کےخلاف جارحانہ روئیے کے تناظر میں رائے زنی بھی کرتے رہے ہیں۔ در حقیقت پاکستان کو جہاں اندرونی طور پر مختلف سیاسی، آئینی، انتظامی و معاشی مسائل کا سامنا ہے وہیں بھارت کی پاکستان مخالف حرکات و مسلم دشمن ہندو توا کے فلسفے کی شیطنیت کے باعث ملکی سرحدوں کے تحفظ کا بھی سامنا ہے، بھارت کی ان حرکات میں اسرائیل کا پس پردہ تعاون اور سپورٹ بھی کوئی راز نہیں رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کےخلاف بھارت کی خامہ فرسائی محض دو ملکوں کے درمیان یا بھارت کی مسلم اقلیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کےخلاف ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت امریکہ و اسرائیل اور ان کے حلیفوں کے منصوبوں کا حصہ ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ایران کے اہم ترین جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد میں ڈرون حملے میں شہادت کے واقعہ سے امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی اور بگڑتی ہوئی صورتحال نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ ساری دنیا کو جنگ کے خطرات میں دھکیل دیا ہے، واقعات و اطلاعات کے مطابق ایرانی جنرل قاسم سلیمانی عراق کے وزیراعظم عادل المہدی سے ملاقات اور سعودی عرب کےلئے ایرانی قیادت کا ایک اہم پیغام لے کر آئے تھے لیکن ایئرپورٹ پر ہی جب وہ کار میں سوار ہو رہے تھے ان پر ڈرون حملہ کیا گیا، اس حملے میں قاسم سلیمانی کے علاوہ ایک اور ایرانی جنرل المہندس بھی ہلاک ہوئے، جنرل سلیمانی ایرانی فوج کے اہم ترین افراد میں اور ایرانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کے دست راست میں شمار کئے جاتے تھے اور ایرانی صدر کے بعد وہ ریاست میںاعلیٰ حیثیت رکھتے تھے۔ اس واقعہ کے فوری بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے امریکہ کے دشمن اور دنیا کے نمبر ایک دہشتگرد سلیمانی کو فضائی حملے میں ختم کر دیا ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ قاسم سلیمانی بہت بڑی تعداد میں امریکی شہریوں، فوجیوں کی ہلاکت اور امریکہ کی اہم تنصیبات و مراکز کی تباہی کے ذمہ دار تھے، واضح رہے کہ قاسم ایران کی اسلامی انقلابی فوج کے القدس ڈویژن کے سربراہ تھے، اور ایرانی مفادات کے حوالے سے بین السرحدی امور، تربیت اور غیر معمولی حالات کو کنٹرول کرنے کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ جنرل سلیمانی ایرانی مفادات کے تحفظ کیلئے داخلی و خارجی محاذوں پر متحرک تھے اور ایران کیخلاف ہونےوالے اقدامات و سرکوبی کیلئے سرگرم عمل رہتے تھے۔ حزب اللہ کی تشکیل و تربیت میں ان کا کردار اہم تھا، قاسم سلیمانی کو نہ صرف ایران میں بلکہ بغداد، شام، یمن اور دیگر شیعہ کمیونٹیز میں بھی ایک ہیرو، منصوبہ ساز اوربہترین لیڈر کے طور پر بے حد مقبولیت حاصل تھی، شام میں داعش کی بیخ کنی میں بھی ان کا بہت اہم کردار رہا۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت نے ایران میں کہرام برپا کر دیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، ایرانی رہنما خامنہ ای، صدر، وزیر خارجہ، اسپیکر اور دیگر رہنماﺅں نے امریکہ کے اس اقدام کو ریاست پر حملہ اور امریکہ کی جانب سے جنگ کا آغاز قرار دیتے ہوئے سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا، ”مرگ بر امریکہ“ کے نعرے اور ایرانی قیادت و عوام کا احتجاجی رد عمل نہایت فطری رہا، اُدھر عراق میں بھی لاکھوں افراد کا احتجاج، عراقی وزیراعظم کا امریکی حکومت کے عراقی سرزمین پر سلیمانی کے قتل پر امریکی افواج، سفارتی عملے اور شہریوں کو نکالنے کا اعلان جس کی عراقی پارلیمنٹ نے اکثریتی قرارداد سے توثیق کر دی امریکہ کے عراق میں مفادات کے منفی ثابت ہوا ہے۔
امریکی صدر کے حکم پر اس واردات نے ایک آگ کی صورت اختیار کر لی ہے جس کے اثرات صرف ایران پر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا تک پہنچ سکتے ہیں۔ ایرانی رد عمل اور امریکہ کے 35 اہداف کو نشانہ بنانے کے جواب میں ٹرمپ کا ایران کے 52 کلچرل (مقدس) مقامات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ اور جدید اسلحے سے ایران کو تباہی کا اعلان جلتی پر تیل کی مانند ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام سے نہ صرف خلیج پر بلکہ مشرق وسطیٰ اور عرب کے خطے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں بلکہ دنیا بھر کے امن کیلئے خطرناک ہے، دنیا بھر میں بشمول چین، روس، یورپی و ایشیائی ممالک میں بے چینی کی صورت ہے، حد تو یہ ہے کہ ٹرمپ کے اس بے وقت اقدام پر خود امریکہ میں شدید رد عمل ہے۔ سیاسی اشرافیہ، تھنک ٹینکس نے بھی اس حرکت کو بھونڈی اور اپنے مواخذے سے توجہ ہٹانے کی حرکت قرار دیتے ہوئے کسی ایڈونچر سے باز رہنے پر زور دیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے مفادات کےلئے یا صہیونی سازشوں کے حوالے سے جتنی بھی محاذ آرائیاں کی ہیں اسے کبھی کوئی کامیابی حقیقی معنوں میں نہیں حاصل ہوئی ہے، ویت نام جنگ میں پسپائی کی صورت کا سامنا رہا، اسرائیل و مصر کی جنگیں ہوں، ایران، عراق کی محاذ آرائی ہو، 9/11 کی آڑ میں افغانستان پر لشکر کشی ہو یا خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کے بہانے عراق کی تباہی، ہر جگہ امریکہ کو شرمندگی اور سبکی کا سامنا رہا ہے۔ اس وقت بھی ایرانی جنرل کی ہلاکت پر عراقی رد عمل پر ٹرمپ کا عراق کو دھمکیاں دینے اور عراق میں مزید افواج بھیجنے کا اسرار اس امر کا عندیہ ہے کہ جو کچھ پچھلے جمعہ کو ہوا ہے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہوا ہے،ا مریکہ کی تاریخ اس بات کی مظہر ہے کہ جب بھی کسی صدر کے مواخذے کا معاملہ ہوا ہے امریکہ نے جنگ کا ارتکاب کیا ہے۔ لنکن کے انتقال کے بعد صدر منتخب ہونےوالے اینڈریو جانسن کےخلاف مواخذے کے وقت امریکہ کی دس ریاستوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی، کلنٹن کے مواخذے کے وقت عراق کی تاریخ بگاڑی گئی اور اب ٹرمپ کے وقت پر ایران کے اہم ترین جنرل کو ہلاک کر کے جنگ کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک اور صورت جو ٹرمپ کے حالیہ اقدام کے حوالے سے سامنے آئی ہے اس کیلئے امریکہ کی سینٹرل کمانڈ (Centcom) کے ایک سابق جنرل کا انکشاف بھی بڑا اہم ہے۔ جس کی ویڈیو حالیہ واقعہ کے حوالے سے سامنے آئی جس میں امریکہ کی سات مسلم مملکتوں کو (وسائل سے مالا مال) زیر کرنے کی منصوبہ بندی کا انکشاف کیا گیا۔ ایران وہ ملک ہے جو ساتواں ہدف قرار پایا تھا، پہلے چھ ممالک پہلے ہی امریکہ کا نشانہ بن چکے ہیں لگتا یہی ہے کہ منصوبہ کا ساتواں ہدف ٹرمپ کے مواخذے کے وقت نشانہ بنائے جانے کا اقدام اسی لئے کیا گیا ہے۔
ایران مشرق وسطیٰ کے دیگر عرب ممالک کے برعکس نہ صرف یہ کہ تیل کے ذخائر کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے بلکہ یورپی یونین کے ممالک کی 85 فیصد، چین اور روس کی 100 فیصد ضروریات کےساتھ بھارت سمیت دیگر ممالک کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے دیگر امریکی زیر طاقت عرب ممالک کے برعکس اس کی سرحدیں افغانستان، پاکستان، وسط ایشیائی ریاستوں سے بھی ملتی ہیں۔ تاریخ و مذہبی حوالے سے اس کے مزاج کا خاصہ ایک متحد و منظم قوم کا ہے اور اس کے عقائد کے افراد متعدد عرب، خلیجی اور ایشیائی ریاستوں میں ایران سے مضبوط رشتوں میں جُڑے ہوئے ہیں اور کسی بھی ناخوشگوار خصوصاً مذہبی و ثقافتی حوالوں سے رونما ہونےوالی صورتحال میں امریکہ یا کسی بھی حملہ آور قوت کےخلاف صف آرا ہو سکتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں اگر امریکہ کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی تپش محض ایران تک نہیں ہوگی بلکہ نہ صرف پورا خطہ¿ عرب و خلیج بلکہ افغانستان، پاکستان، وسط ایشیائی ریاستوں بلکہ یورپ، چین اور روس تک بھی پہنچے گی۔ اس منظر نامے میں جہاں افغان امن عمل میں امریکی کوششیں بے اثر ہو جائیں گی جنگ کی صورت میں پاکستان سمیت دیگر اہم ممالک بھی اس سے متاثر ہونگے۔ ایران پر امریکہ کی بندشیں بھی کارگر نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس لئے کہ ان سے متاثر ہونےوالے یورپی و دیگر ممالک اپنی معیشت کے متاثر ہونے پر کبھی تیار نہیں ہونگے۔ پومپیو کے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مختلف ممالک کے سربراہوں، وزیروں اور رہنماﺅں کو فون کرنے کا نتیجہ یقیناً امریکہ کے حق میں نہیں رہا۔ پاکستان کے آرمی چیف کو پومپیو کے رابطے کے بعد آرمی چیف اور پاکستانی حکومت کا مو¿قف اور خود پومپیو کا ٹوئیٹ اس سچائی کا عکاس ہے کہ امریکہ کے کسی بھی جارحانہ اقدام سے نہ صرف عالمی امن کو دھچکا پہنچے گا بلکہ خطے میں خصوصاً افغانستان میں امن کے عمل کو نقصان ہوگا تو کیا امریکہ ایسی صورت میں کوئی جارحانہ اقدام کرنے کی پوزیشن میں ہوگا؟
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا بہت صحیح اور واضح مو¿قف ہے کہ اپنی سرزمین کسی کو استعمال نہیں کرنے دینگے، پاکستان پہلے ہی دوسروں کی جنگ میں بہت کچھ گنوا چکا ہے، موجودہ منظر نامے میں جب ہم پہلے ہی بھارت کی نفرت انگیزی اور جنگی جنون سے نبرد آزما ہیں ہمیں امن کی کوششیں ہی کرنی چاہئیں۔ ہمیں دوستوں یا پڑوسی کی پراکسی وار کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
٭٭٭