زندگی کی رونقیں بحالی کیطرف “

0
107
شبیر گُل

شبیر گُل

آج علی الصبح گھر کے بیک یارڈ میں پرندوں کی موج مستیاں اور چہچہاہٹ نے صبح تہذیب کو مترنم بنا دیا۔گزشتہ کئی ماہ سے ماحول میں ا±داسی تھی۔ انسانوں کے ساتھ پرندے بھی خاموش اور ا±داس تھے ، کاروبار زندگی تھم گیا تھا۔ایسے محسوس ھوتا تھا کہ جیسے قیامت آچکی ھے۔گزشتہ چار ماہ سے کرونا جیسی خطرناک وبائ نے پوری دنیا میں خوف اور دہشت مسلط کر رکھی ھے۔یہ دہشت چین سے ایران ، پاکستان ،یورپ ،امریکہ اور اب پھر پاکستان کا رخ کر چکی ھے۔ھمارے کئی پ±رانے دوست اور رشتہ دار اس وبائ کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔اس خوفناک بیماری سے پاکستان کرونا کی دہشت کا اگلا مسکن ھے۔یہ ایسی خوفناک وباء ھے جس نے ماں بیٹے، بہن بھائی، کے درمیان فاصلے پیدا کردئیے ھیں۔ہر کوئی ایکدوسرے سے ملنے میں محتاط۔ان چار ماہ میں بیشمار دردناک کہانیاں ھیں۔اگر بیٹا ہیوسٹن یا کیلیفورنیا میں ھے تو ماں اور باپ نیویارک میں۔گزشتہ دنوں ایسی درجنوں کالیں موصول ھوئیں جن کا بیان انتہائی تکلیف دہ ھے۔ کئی مقامات پر پوری پوری فیملی کو کرونا پازیٹو تھا۔ان سے نہ کوئی ملنے جاتا اور نہ ہی کرونا کے مریض کسی کو مل سکتے۔کرونا کی دہشت نے ماحول کو خوفناک بنا دیا تھا۔الحمد للّٰہ ھمارے وائلنٹیرز کی ٹیم نے حدمت خلق میں اپنا فرض نھبانا کی پوری کوشش کی۔ھم نے گھروں تک ڈلیوری پہچانے کا جان دن رات جاری رکھا۔کئی چھوٹی موٹی آرگنائزیشنز نے خوب مال بنایا۔اور کئی لوگوں نے اپنے اللہ کی خوشنودی کے لئے ہر رنگ و نسل کی فرد تک رسائی کو اپنا فریضہ سمجھا۔نیک کا کام جو کر رہا ہے اسے کرنے دیں۔ بس خود نہیں کر رہے تو دوسروں کو ہم تنقید نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر شریعی ایران کے سکالر ہیں۔اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔جو نماز پڑھ رہا ہے اس پر تنقید ہورہی ہے کہ درست نہیں پڑھ رہا۔ ہاتھ باندھ کر یا کھول کے۔ یا سینہ پر رکھ کر۔مگر جو پڑھ ہی نہیں رہا اس پر کوئی تنقید نہیں کر رہا۔اور جو گھر بیٹھ کر منفی پراپگینڈہ کر رھا ھے۔ اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ایسے ھی کچھ منفی ذہنیت کے مالک ہر اچھے کام پر تنقید ضروری سمجھتے ھیں۔ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ھے۔کرونا سے ابھی بھی احتیاط کی ضرورت ھےکرونا کے خوف کو لودھی صاحب نے عید کے دن توڑ کر کمﺅنٹی کے دوستوں کے لئے مل بیٹھنے کی راہ ہموار کی۔طاہر میاں صاحب گزشتہ دو ہفتوں سے اکنا ریلیف کی وائلنٹیرز ٹیم کو باربی کیو کی دعوت پر مدعو کر رھے تھے۔ مصروفیت کی وجہ سے حامی نہ بھری۔ لیکن گزشتہ ہفتے ان کے مینیو کا س±نا تو رھا نہ گیا۔ویسے امام مرسلین ،مفتی رفیق اور امام شبیر رمضان المبارک میں جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کو دوستوں کو دعوت افطار پر اکٹھا کرتے رھے۔لیکن طاہر میاں کی باربی کیو نے ماحول میں محبت اور چاہت کے موتی بکھیر دئیے۔جمعے وائلنٹیرز نے بہت انجوائے کیا۔ کباب، کٹا کٹ اور اسٹیک بہت کاجواب تھے۔نیوجرسی میں سیم خان نے کمﺅنٹی کو اکٹھا کیا۔بارک لے سینٹر کے باہر پروٹیسٹ میںنہ سوشل ڈسٹنس تھا نہ ماسک نظر آئے۔جہاں نمازی کنبے سے کندھا ملا کر نماز پڑھ رھے تھے وہاں پولیس افسران بھی کبھی سے کندھا ملا کر پیچھے کھڑے تھے۔زندگی کی رونقیں بحال ھورھی ھیں۔ نیویارک سٹی میں معیشت کی بحالی کا پہلا فیز لاکھوں افراد ملازمتوں پر واپس پاکستانی امریکی کمیونٹی بھی آہستہ آہستہ سماجی اور معاشی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں بلکہ پاکستانی کمیونٹی پہلے ہی مستحق اور ضرورتمند طبقوں میں خوراک اور راشن کی تقسیم کے ذریعے سماجی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے تاہم ہفتہ کے روز سیم خان نے نیوجرسی میں پی ٹی آئی یو ایس اے اور ریجنل چیپٹرز کے عہدیداروں کا اجتماع اکھٹا کیا. کورونا وائرس کے دوران کمیونٹی کا یہ پہلا اجتماع تھا جو ایک شاندار باربی کیو کی صورت میں منعقد ہوا جس میں پی ٹی آئی کے علاوہ کمیونٹی کے مختلف طبقہ فکر کے افراد شریک ہوئے خوشگوار موسم اور سیم خان کے سر سبز و شاداب گھر میں ایک بھرپور باربی کیو تقریب منعقد ہوئی اکثر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کئی مہینوں کے بعد ملے اور ایسے ملے کہ سوشل ڈسٹنسنگ اور لاک ڈاو¿ن کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا
ایسے ہی ایک موقع پر بلکہ اس سے کہی ان بڑے موقع پر برکلے سینٹر بروکلین میں کھلی جگہ پر مسلمانوں نے جمعہ کی نماز کا بندوبست کیا جس میں ایک ہزار سے افراد نے کندھو کے ساتھ کندھا جوڑ کے جماعت ادا کی.
ھمارے ایک اچھے دوست اور دنیا ٹی وی کے امریکہ میں نمائندے معوذ اسد صدیقی نے فیس بک لائیو کیوریج کے دوران لیا خوب لقمہ دیا کہ ایسا لگتا ہے” سوشل ڈسٹنسنگ گئی تیل لینے
کہنے کا مطلب لگتا نہیں بلکہ حقیقت میں سوشل ڈسٹنسنگ گئی تیل لینے۔
ان مظاہروں میں ایک نعرہ بہت زیادہ توجہ پایا۔” ہم عرب نہیں کہ تم ہمیں قتل کرو اور ہم خاموش رہیں “
امریکا میں حالیہ دنوں صرف ایک سیاہ فام کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے پر دنیا کے سپرپاور ملک میں آگ لگ چکی ہے۔ بہت کچھ ہورہا ہے مگر ہم بات کریں گے یہاں پر ہونے والے ایک مظاہرے کی۔جس میں شریک ایک عورت کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پر لکھی عبارت عربوں سمیت اسلامی دنیا کے تمام حکمرانوں کے لئے زوردار تھپڑ ؛ہے باغیرت انسان کے لئے دس الفاظ پر مشتمل یہ عبارت بہت کافی ہے مگر بات وہیں آجاتی ہے کہ باغیرت ہونا شرط ہے۔ فلسطین کشمیر۔ روہنگیا۔ برما۔ شام۔ عراق ودیگر ممالک میں میں روزانہ درجنوں بیگناہ مظلوم عورتیں مرد بچے بوڑھے بیدردی سے ناحق قتل کئے جارھے ہیں۔ مگر سلام ہے ہمارے بے شرم، غیرت سے عاری اور بے ضمیر موجودہ اسلامی ممالک کے سربراہوں کو۔ جن کی زبانیں ان کی اقتداری کرسیوں کے ساتھ چپکی ہوئی ہیں اور ان کی غیرت وحمیت یہودنصارا کے تلوے چاٹنے تک محدود ہےاور انہی ممالک کی عوام سابق چیرمین آف دی جوائنٹ چیف آف سٹاف مائیک مومن کا کہنا ھے کہ میں اب خاموش نہیں رہ سکتا۔
مظاہرین امریکی شہری ہیں غیر ملکی دشمن نہیں ان کے خلاف ٹرنمپ کی طرف سے فوجی ایکشن کے حکم کی مذمت کرتا ہوں پرامن مظاہرین کے آنسو گیس اور طاقت کا استعمال کسی طور اچھا عمل نہیں ہے انھوں نے کہا یہ بات واضع ہے ڈونلڈ ٹرنمپ کے اقدامات میں پرامن اجتجاج کے خلاف ان کی نفرت کا اظہار ملتا ہے
انھوں نے کہا ایک گورا ہونے کی حثیت سےمیں یہ دعوی نہیں کر سکتا نہ میں اس بات کا اداراک کر سکتا ہوں آج سیاح فام امریکی شہری اپنے اندر نفرت کی وجہ سے کتنا
غم و غصہ اور ناراضیگی رکھتے ہیں
چاہے کوئی گورا ہو یا کالا آئینی طور پر یکساں حققوق رکھتے ہیں۔ سیاح فام امریکی شہریوں کا غصہ بجا ھے۔ گوروں کی کالوں سے نفرت کا سلسلہ بند ھونا چاہئے۔ اس سے امریکہ اور پوری دنیا میں سیاح فام کمﺅنٹی کو احتجاج ہر مجبور کردیا ھے۔
کو تو لاکھوں توپوں کی سلامی بھی کم ہے۔اللہ ھماری غیرت اور دینی حمیت کو زندہ فرماے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here