وطن! مادرِ وطن سے روز گارِ وطن تک!!!

0
276
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! 5 ماہ اور 4 دن مادرِ وطن میں گزار کر الحمدللہ میں روز گارِ وطن پہنچ گیا ہوں جہاں کورونا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میرا استقبال بیرسٹر رانا شہزاد صاحب نے کیا۔ وطن میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آرہا ہے شاہد وٹو جس نے اپنے والد سے بڑھ کر خدمت کی اور ایسے ایسے پکوان پکا کر کھلائے کہ ان کا مزا یاد کر کر کے پاکستان اور اس کی یاد کو اپنے اندر زندہ رکھتا ہوں ۔ اس کے علاوہ میری کزن اور میری چھوٹی بہن کی کسٹوڈئین رضیہ سلطانہ صاحبہ نے میری اور میرے مہمانوں کی مہمانداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور میری غریبی کا پورا بھرم قائم رکھا۔ اللہ ان کو اس کا اجر فرمائے اس کے علاوہ میری عزیزہ زارا میاں اور ان کے بچوں نے بھی رونق لگائی رکھی ورنہ اپنے پوتوں کے بغیر تو گھر کھانے کو آوے ہے۔ میں پچھلے کالموں میں تقریباً سب دوستوں کا ذکر کر چکا ہوں جن لوگوں نے میری تنہائی کاٹی اور بور ہونے سے بچاتے رہے ان میں صحافتی اسٹیبلشمنٹ کے اورعسکری نیوز کے امان اللہ خان اور ایکسپریس نیوز کے علامہ تنویر قیصر شاہد جن کا میں ذکر جتنا بھی کر لوں کم ہے اللہ پاک ان دوستو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے کہ آج کے اس کمرشل دور میں ایسے دوست کم ملتے ہیں ۔
قارئین وطن! اس بار دو دوستوں کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرا اور ان کے ساتھ پاکستان میں رواں سیاست کے نئے نئے پہلوو¿ں کو سمجھنے کا موقع ملا۔ محترم شعیب بن عزیز صاحب سابق ڈی جی ڈی پی آر اور کرنل عامر نواز خان صاحب کہ ان کے ادارے کا نام بتاتے ہوئے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں لیکن دونوں دوستو نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور دل کھول کر گفتگو کی اور نتیجہ میں نے یہ اخذکیا کہ “سردار نصراللہ تو تے حالی جمیا ہی نہیں سیاست واسطے “ حالانکہ اس دشت کی سیاہی میں50 برس صرف کر دئیے ہیں شعیب بن عزیز صاحب نے کسی دوست کا شعر سنا کر میری آنکھوں پر پڑے کئی پردے ہٹا دئیے !
ہے غارتِ چمن میں یقیناً کسی کا ہاتھ
شاخوں پہ انگلیوں کے نشاں دیکھتا ہوں میں
اس شعر کی گہرائی میں اترا تو منیر نیازی کا مصرع یاد آگیا کہ ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے ۔ کرنل عامرصاحب سے تو گلہ ہی رہا کہ جینے والوں کے گھر میں تاریکی اور مرقدوں پر چراغ جلتے ہیں۔ پاکستان بنانے والوں پر جبر اور نواز شریفوں اور زرداریوں پر نوازشیں۔ بعض دفعہ تو یہ گمان ہوتا ہے کہ ادارہ ان کا ذاتی ملازم ہے اس سے آگے ہم بھی شکائیت کی طاقت نہیں رکھتے۔ دونوں دوستوں کا شکریہ کہ اپنے اپنے انداز میں دوستانہ شفقتوں کی برسات کرتے رہے۔
قارئین وطن! 24 جولائی کو میری فلائیٹ تھی اور میں لمبے سفر کا سوچ سو چ کر تھکا جا رہا تھا سفر سے پہلے اور دوسری طرف سامان اور اس کے وزن کا سر پر ایک بھاری بوجھ لیکن قدرت بڑی کارساز ہے اس کے رازوں کو وہی جانتا ہے ایسے تو نہیں کہتے کہ اللہ مسبب الاسباب ہے رئیس شہر قمر بشیر صاحب کا فون آتا ہے اور بتانے لگے کہ راو¿ عبد رحمان اپنی والدہ کو چھوڑنے پاکستان آیا ہوا ہے اور وہ بھی آپ کے ساتھ واپس ٹرکش ائیر لائین پر ہی واپس آئے گا میں نے اس کو آپ کا فون نمبر دے دیا ہے ۔ اللہ میاں نے راو¿ صاحب کو اپنی امی کے بہانے میرا ہمسفر بننے کےلئے بھیجا تھا انہوں نے نہ صرف میرے سامان کا آدھا بوجھ اٹھایا بلکہ میری تیمارداری کا بھی بوجھ اٹھایا اور آخری وقت تک میرے ساتھ کھڑے رہے۔ انہوں نے دوستی اور برخورداری کا پورا حق نبھایا۔ اس کو کہتے ہیں معجزہ کہ میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ راو¿ عبدرحمان میرا ہمسفر بنے گا اللہ پاک اس کو عمرِ خضر کے ساتھ صحت اور ترقی عطا فرمائے امین۔ کہ بڑے نایاب لوگ ہیں یہ !
قارئین وطن ! سیاست کا کینو س اتنا بڑا ہے کہ اداروں کی سمجھ سے بھی باہر ہے ہم تو پھر50 سال گزارنے کے باوجود طفلِ مکتب ہیں جب سے امریکہ پہنچا ہوں اس کشمکش کا شکار ہوں کہ میں پاکستانی ہوں یا امریکن عجب حال ہے اپنا نہ وہ مرنے دیتے ہیں نہ یہ جینے دیتے تو کیا سیاست اور کیسی سیاست بس سوچتا ہوں کہ کالم لکھنے پر توجہ مرکوز کروں اور دوستو کا جھمگٹا لگا کر کھانے پینے کا شغل ہی کر لیا کروں کہ ہم تو پاکستان بنانے والے کہ ایک بھی آدرش پر نہیں اترے پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ خیر ہو پاکستان کی پاکستان زندہ باد ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here