سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن !میرے کچھ پڑھنے والے جن کے ساتھ ذاتی دوستیاں بھی ہیں جو تقریباً 30/35سالوں پر محیط ہے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان وزیر اعظم میرا لیڈر ہے اور وہ اس لئے سمجھتے ہیں کہ میں اپنے کالموں میں اس پر تنقید نہیں کرتا اور نواز شریف ہی میرا مشق نشانہ ہے ، پہلے تو میں اپنے قارئین اور احباب پر واضع کرنا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی لیڈر نہیں ہے میرا لیڈر اور قائید حضرت قائید اعظم اور ان کی ہمشیرہ مادرِ ملت ہیں جن کے آدرش میری سیاست کا نصبالعین ہیں اور آج ان کی پارٹی “پاکستان کونسل مسلم لیگ” کےپرچم± کا اپنے ناتواں کندھوں پر بوج لئے پھرتا ہوں لہازا میرا کوئی لیڈر نہیں ہے میاں ممتاز دولتانہ سے لے کر آخری صدر میاں زاہد سرفراز یہ سب پارٹی کے ہیڈ تھے لیڈر نہ تھے پھر جب کونسل اور کنونشن ایک ہوئے تو محمد خان جونیجو سے لے کر نواز شریف کو بھی کسی ان دیکھے ہاتھوں کی وجہ سے صدارت کا اعزاز ملا پھر قوم نے دیکھا کہ نواز شریف مشرف سے معافی مانگ کر ملک سے فرار ہو کرجدہ پہنچ گیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان مسلم لیگ ل ن م ق میں بٹ گئی اور میں نے بجائے چوہدریوں، چٹھوں میروں اور پیروں کی طرح مشرف کے قدموں میں نہی بیٹھاجو کہ ایک ڈیکٹیٹر تھا میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر پاکستان کونسل مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن سے بحال کروایا اور اپنے والد کے نظریہ کے مطابق “That we die and sink in the same party” کونسل مسلم لیگ کا پرچم تھام لیا۔
قارئین وطن! جو دوست احتراز کرتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف کیوں نہیں لکھتے اور فوج کے میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں کو ئی پیشہ ور صحافی یا کالم نگار نہیں ہوں میں ہر اس شخص کے خلاف لکھتا اور بولتا ہوں جو میری دھرتی ماں کہ خلاف کام کرتے ہیں خوا وہ فوج ہو، نواز شریف ہو، آصف زرداری ہو یا عمران خان ، ہاں آج جبکہ عمران خان نے بد نامِ زمانہ مولانا طاہر اشرفی کو اپنا معاون بنا کر اتنا بڑا بلنڈر کیا ہے کہ جب سے میرے کانوں میں یہ خبر پہنچی ہے میں تلملا کہ رہ گیا ہوں اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ عمران تم بھی؟قارئین وطن! بہت دن گزرتے ہیں کہ میں اپنے دو دوستوں سپریم کورٹ کے مشہور ایڈوکیٹ اور لاہور بار کے وائس پریذیڈنٹ راشد لودھی صاحب اور کونسل مسلم لیگ پنجاب کے صدر توصیف بھٹی ایڈوکیٹ کے ساتھ نیلا گنبد غلام رسول کے چھولے کھانے گیا میں جب بھی لاہور جاتا ہوں تو سب سے پہلے اپنے دوستو کے ساتھ غلام رسول کے چھولے ضرور کھانے جاتا ہوں جب ہم گاڑی سے اتر کر دوکان کی طرف جانے لگے تو سامنے سے سے اللہ جھوٹ نہ بلوائے تقریباً چار من وزنی بیل کے سائیز کا ایک مولوی شراب کہ نشہ میں د±ھت (خیر شراب تو میں بھی پیتا ہوں) اتنے ہی سائیز کے تین یا چار مسٹنڈے چار پانچ کلاشنکوف بردار گارڈز کے گھیرے میں چلے آرہے تھے میں نے لودھی صاحب سے استفسار کیا کہ یہ کیا شہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ نیا نیا مولوی مولانا طاہر اشرفی ہے اور آئی ایس آئی کا بگل بچہ ہے اور آجکل شہر کے غنڈوں میں شمار ہوتا ہے موصوف – اب میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ عمران خان جس کو آئے ہوئے ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں حکومت میں اور اس کے قوم سے کئے وعدے کہ وہ صاف اور شفاف لوگوں کو اپنے ساتھ رکھے گا اس بدمعاش مولوی کی تقرری کے حوالے سے مجھے عمران اور خائین نواز شریف میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آیا نواز نے بھی ایسے تلنگے بھرتی کئے ہوئے تھے اور اب عمران بھی یہی کچھ کر رہا ہے میں نے طاہر اشرفی کے بارے ایک اہم ادارے کے دوست سے مزید اس کے بارے معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ حضرت جرنل مشرف کی ریڑھ کی ھڈی بریگیڈئیر اعجاز شاہ جو اس وقت آی ایس آی پنجاب کا ہیڈ تھا اور آجکل عمران کی حکومت میں انٹیرئیر منسٹر کے عہدہ پر براجمان ہے کا پروڈکٹ ہے میرا خیال ہے اعجاز شاہ کی اس پر نظر اس وقت پڑی جب یہ جامیعہ اشرفی میں سب سے نکدھ طالب علم تھا لیکن یہ مولانا اشرفی صاحب کی چمپی اور مالش خوب کرتا اور ان کی پریس رلیز مختلف اخباروں کے دفتر پہنچاتا اور مختلف مساجد کے منہ پھٹ مولویوں کی مخبریاں بھی کرتا جس کی وجہ سے یہ اعجاز شاہ صاحب کے قریب ہو گیا –
قارئین وطن! میرا خیال ہے کہ جب عمران خان وزیر اعظم یو این او میں کشمیر پر زبردست تقریر کر کے واپس وطن لوٹے تو اس وقت ان کے استقبال کرنے والوں اور بلند نعرے لگانے والوں میں بھی اس کا شمار تھا اور وہیں پر یہ عمران خان کو بھا گیا اور کچھ مولانا فضل الرحمان کا توڑ کرنے کے لئے اعجاز شاہ نے بھی سانپ سے سانپ لڑانے کا مشورہ دیا ہو جو وزیر اعظم کو پسند آگیا ہولیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اس بدمعاش مولوی کی تقرری عوام کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور لوگ عمران خان کو اپنے ساتھیوں کی سلیکشن میں نواز شریف کا سانی سمجھتے ہیں جبکہ عمران کی پارٹی میں یقیناً بہت اچھے اچھے لوگ ہوں گے جن سے وہ مولانا فضل رحمان جیسے ملک دشمن سازشی ملا کو مارنے کا کام لے سکتا ہے، اللہ ہمارے حکمرانوں اور سلامتی کے اداروں کو ساتھی چننے کا شعور بخشے آمین۔
٭٭٭