پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایفIMFسے لیے گئے قرض میں طے شدہ شرائط پر عمل کرتے ہوئے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ماری عوام کو ایک اور جھٹکا دے دیا ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔صرف گیس کی قیمتوں میں191فیصد اضافہ گھریلو صارفین کی کمر توڑ دیگا۔سرد علاقوں میں جو لوگ اپنے گھر گرم کرنے کے لیے گیس کا استعمال کرتے ہیں انہیں سردی سے ٹھٹھرنے پر اکتفا کرنی پڑیگی۔ان اضافوں کا اثر اشیاءخوردونوش کی قیمتوں پر بھی پڑیگا۔مہنگائی کے خلاف وزیراعظم عمران خان نے ایک اجلاس بلوایا اور دوسری طرفEECکے اجلاس میں گیس کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا۔ضرورت اس بات کی تھی کہ آئی ایم ایف سے مزید وقت مانگا جاتا کیونکہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ایسے وقت میں گیس اور بجلی کے نرخ میں کئی گنا اضافہ کا جھٹکا پہلے سے پسی ہوئی عوام پر اونٹ کی کمر کا آخری تنکا ثابت ہوسکتا ہے ادھر حزب اختلاف کسی جماعتوں نے نیا اتحاد جوڑ کر احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان کیا ہوا یہی ہوسکتا ہے عوام مخالف رہنماﺅں کی کال پر نہیں نکلتے لیکن اب مرتا کیا کرتا؟کی مصداق عوام کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔موجودہ حکومت کی پے درپے ناکامیاں اور ناقص حکومت عملی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ میں نااہل ترین حکومت ثابت ہوچکی ہے۔اگر تو اسٹیبلشمنٹ ہے ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ منتخب نمائندوں کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ ملکی امور چلا سکیں تو پھر انکو یہ بھی قبول کرنا پڑیگا۔کہ انکا عمران خان کو اقتدار میں لانے کا تجربہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔اور اسے جمہوری نظام کی ناکامی نہیں کہا جاسکتا بلکہ انکی اپنی ناقص حکمت عملی ہی سمجھا جائیگا۔تحریک انصاف کے وزیر اسد عمر عوام کو کروناوائرس سے ڈرا رہے ہیں جیسے کرونا وائرس کوئی نئی وبا آگئی ہے لیکن گیس اور بجلی کی قیمتوں میں دھماکے دار اضافے پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہے۔لوگوں کو موت سے تو ڈرا رہے ہیں لیکن جیسے جی مارنے پر تسلی بھی نہیں دے رہے ہیں۔ادھر وفاقی حکومت سندھ وبلوچستان کے سمندری جزیروں پر قبضہ کا پلان بنا رہی ہے۔سندھی اور بلوچ قوم پرستوں نے احتجاج کا پروگرام بنایا ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بھڈوں کے چھتوں میں تنکے چبھو رہے ہیں،اب سمندری جزیروں پر سرمایہ داری کروانے کے خواب دکھا رہے ہیں شہریوں قصبوں اور گاﺅں میں جہاں لوگ بستے ہیں وہاں کی عوام کوغربت وافلاس کے جہنم میں دھکیل رہے ہیںلیکن ویران جزیروں میں سرمایہ کاری کی بات کرکے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں آبادیوں کو ویران کررہے ہیں لیکن ویرانوں کو آباد کرنے کے وعدے وعید کرکے چھوٹے بھائیوں کی اسلامی پر قبضہ کرنے کے منصوبہ بنا رہے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ عمران خان عوام کو تبدیلی کے سنہرے خواب دکھا کر بربادیوں کی طرف لے جارہے ہیں۔دو برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی نوازشریف کی حکومت کو موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔بھائی اگر آپ کو علم بھی تھا کہ خانہ خراب ہی ہونا ہے تو پھر اقتدار میں آنے کیلئے تگ ودو کیوں کی اسٹیبلشمنٹ سے بدترین سمجھوتہ کرکے بھی آئے اور عوام کو کوئی بھی ریلیف نہیں دیا۔ملک سے باہر سے مشیران کی فوج ظغر موج بھی لے آئے کہ یہ ماہرین ملک کا نقشہ بدل دینگے۔انہوں نے جو اپنے فوائد(ذاتی)لینے تھے اب وہ آہستہ آہستہ ملک سے کھسک رہے ہیں۔عمران خان صاحب آپ نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ایک سال میں ملکی حالات نہیں بہتر کرسکے تو آپ مستعفی ہوجائینگے کوئی تو اپنا وعدہ پورا کریں۔اگر اسٹیبلشمنٹ آپکو فیصلے آزادانہ طور پر نہیں کرنے دے رہی ہے تو انہیں حکمت کی باگ ڈور دیں اور کہہ دیں کے اس طرح مجھ سے تو حکومت نہیں چل رہی آپ ہی ملک کو چلائیں کچھ تو ہمت دکھائیں۔آپ پاکستانی کرکٹ کیا عالمی کرکٹ کے ہیرو تھے کم ازکم اس عزت وتکریم کا تو خیال کریں محسوس تو یہی ہو رہا ہے کہ بقول میرتقی میر کے اس عشق میں عزت سادات بھی گئی پھرتے ہیں۔میر خوار کوئی پوچھتا نہیں کے مصداق تو تہہ کیا ہوا ہے کہ1992ءوالے ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کی تھی وہ بھی گنوانے پر کمربستہ ہیں۔انہیں کالموں میں آپ سے بند ہی ہو رہی توقعات اور اپکی تعریفوں کے پل باندھے تھے جو اب گرتے جارہے ہیں جنرل ایوب خان نے اقتدار اس لیے چھوڑا تھا کہ عوام نے ایک جانور سے انہیں تشبیہ دی تھی خدارا سمجھ جائیں وقت مشکل ہوتا جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭