سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! جنرل ع±مر کے صاحبزادے محمد زبیر عمر کو ایک ٹی وی پروگرام کے دوران میں نے اس کو یہ کہتے س±نا کہ ”میں سیاست دان ہوں“ہم نے تو اپنی سیاست کے ۴۵/۵۰ سالوں میں یہی س±نا پڑھا اور سیاست دانوں کے پیروں میں بیٹھ کر یہی سیکھا کے ایک پولیٹیکل ورکر بننے کے لئے کم سے کم دس سال کی ریاضت چاہئے پھر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس پر پولیٹیکل ورکر کی مہر لگتی ہے لیڈر تو کجا بہت دور کی بات ہے ، زبیر عمر صاحب سرکاری نوکری سے چھلانگ لگا کر نواز شریف کی بستہ برداری میں لگ گئے اور سیاست دان کا لقب حاصل کر لیا ،ان کے لیڈر نواز شریف کا بھی یہی حال ہے لیکن اکثر اس کے بارے بتایا جاتا ہے کہ وہ تحریک استقلال میں رہ چکا ہے وہاں بھی وہ مشہور بھولو پہلوان کی سفا رش پر سیکرٹری فنانس لاہور لگایا گیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں تحریک استقلال کے مرکزی صدر ائیر مارشل اصغر خان مرحوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کے داغ مفارقت دے کر جرنل جیلانی کی گود میں سوار ہو گیا اس کے اقتدار کی طوالت تو ۳۵ برسوں پر ہے لیکن سیاسی ورکر کی عمر ندارد،
قارئین وطن ! یوں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہماری سیاسی جماعتوں میں پیرا شوٹ سے اترنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جنہوں نے سیاسی مشقت کا بوجھ ایک دن بھی نہیں اٹھایا ان میں خاص طور پر جرنیلوں کے بچوں کاشمار زیادہ ہے مثلاً جرنل ایوب کا پ±تر گوہر ایوب ، جرنل ضیاالحق کے دونوں فرزند اعجاز الحق عرف (ٹونی) اور ڈاکٹر انوار، ا±دھر جرنل عمر “یحییٰ” برانڈ کے دونوں صاحبزادے زبیر عمر اور اسد عمر آگے چلیں جرنل اختر عبداحمان جس کی امارت کے حوالے سے امریکہ کے مشہور مصنف “باب وڈورڈ” جس نے صدر نکسن کے اسکینڈل واٹر گیٹ کے حوالے سے انکشاف کیا تھا نے اپنی تصنیف میں بتایا تھا کہ جب “ جرنل رینی اسلام آباد ڈالروں کی بوریوں کے ساتھ اترتا تھا ،ان میں سے دو یا چار ڈالروں سے بھری بوریاں جنرل اختر کی گاڑی میں جایا کرتی تھیں جس کے پاس کرنل تک اپنی گاڑی نہیں ہوا کرتی تھی کے صاحبزادہ گان ہمایوں اختر اور اس کا بھائی اور اسی طرح بہت سے اور جو پاکستان کی سیاست میں بڑے بڑے عہدوں پر فائیز ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے رہنما بن گئے جن کے بارے ہمارے بہت ہی اچھے دوست اور شاعر “مقسط ندیم ایمن آبادی نے کہا!
مقتل کے پاس سے بھی جو گزرے نہ تھے کبھی
ان کا بھی نام قصہ دارو رسن میں تھا
قارئین وطن! یہ وہ اشخاص ہیں جو ہماری سیاست میں پیرا شوٹ کے ذریعے اتارے گئے اور سب کے سب محمد زبیر کی طرح بغیر کوئی تنکہ توڑے سیاست دان بن گئے ،ان میں کچھ ٹیکنو کریٹ کی وجہ سے شہرت کے حامل ہوئے اور کچھ بستہ برداری کی وجہ سے اور ان لوگوں نے ان سیاسی کارکنوں کا حق سیاست مارا جو سیاسی جماعتوں کا جھومر تھے اپنی ریاضت کی وجہ سے اور نہ صرف حق مارا بلکہ سیاسی جماعتوں کو کارپوریشنوں میں تبدیل کر دیا ،آج سچے اور حقیقی پولیٹیکل ورکروں کو چاہئے کہ ایسے پیرا شوٹی سیاست دانو ں سے نجات حاصل کریں تاکہ ہماری سیاسی جماعتیں ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکیں اور یہ لوگ ملک کے سیاسی طول و عرض میں بہتر رول ادا کر سکیں ، ان میں سے بھی سیاست دان وہ ہیں جو آدھے سے زیادہ تو بیرونی ایجنسیوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور ان کے اثاثے نواز شریف اور زرداری کی طرح ملک سے باہر ہیں جب تک پولیٹیکل ورکر اپنا رول نہیں پہچانے گا ہمارا ملک ان سیکنڈ گریڈ سیاست دانوں کے شکنجہ سے آزاد نہیں ہوگا۔
قارئین وطن! ابھی “میں سیاست دان ہوں “ پر اور لکھنا چاہتا ہوں کہ اپنے “قارئین” تک ان لوگوں کے بارے کھل کر بات کروں جو دولت اور چاپلوسی کی ریل پر بیٹھ کر ہماری سیاست میں گھس بیٹھے ہیں کہ اتنے میں ن کا سابق اسپیکر “سردار ایاز صادق” کہ حوالے سے خبریں آنی شروع ہوگئی کہ اس مردود نے اپنے سکینڈ ہینڈ لیڈر بھگوڑے نواز شریف کے حکم کی پاس داری کرتے ہوئے ہمارے سپاہ عسکر کے سربراہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی ۔ایاز کی زبان اپنے باس کے حساب مانگنے کی زبان سے زیادہ میلی تھی اس نے نہ صرف افواج پاک کی بے حرمتی کی ہے بلکہ ۲۳ کروڑ عوام کی دل آزاری کی ہے اور اس پر طرفہ تماشہ کہ اس کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس کو ذرا سی بھی شرمندگی اپنے بیانیہ پر نہیں ہوئی ،اس کے بعد اس کو غدار نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے لفافہ بردار صحافی اور اینکرز اس کے بیانیہ کو مختلف تاویلیں دیتے نہیں تھک رہے کہ اس نے فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ وزیر خارجہ کے بارے کہا ہے میرے دوست شیخ شعیب جن کے ساتھ ہم دونوں اپنی پولیٹیکل فیلنگز شیئر کرتے ہیں نے کہا کہ اگر عمران کی حکومت اور افواج کی کمانڈ نے ان میر جعفروں اور میر صادقوں پر ہاتھ نہ ڈالا تو پھر حکومت کی کوئی رٹ باقی نہیں رہے گی اور بچے گلی گلی میں افواج کی ٹانگیں ہلاتے رہیں گے اور پسینہ میں شرابور کرتے رہیں گے میں ان سے سو فیصد اتفاق کر تا ہوں کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے اب بھی ان منحوس لوگوں کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے تو پھر حضور یہ اسی طرح ہندوستان کی آواز سے آواز ملا کر پاکستان کی بے حرمتی کرتے رہیں گے ، آج عمران خان صاحب ، چیف جسٹس صاحب ، جنرل باجوہ صاحب گیٹ ریڈی اینڈ گو آفٹر دی کرپریٹ پلئیزاور اس شعر کو ذہن نشیں کرکے خدارا جلد کچھ کریں!
کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
٭٭٭