قارئین وطن! راون نمبر دو شہباز شریف کی تین چار ہفتوں سے باندر پھرتیاں دیکھ دیکھ کر میرا خون کھولنے لگا ہے اور میں یارانِ سیاست سے کہتا ہوں خوگر مجھ سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیں کہ بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم سے پاکستان بنانے کا کیا قصور سرزد ہو گیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوئوں کے تسلط سے نکالنے کے لئے انگریز کے جبڑوں سے نجات دلانے کے لئے ہندوئوں ، یونینسٹ مسلمانوں اور ان کے سرپرست اِمپیریئل فورس کی سازشوں کا مقابلہ ہمیں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قومی تشخص ، معاشی بدحالی سے نکالنے کے لئے لڑ کرکرنا چاہئے ، اس لئے پاکستان نہیں بنایا کہ ہماری سیاست کا محور نواز شریف، مولوی فضل الحق ،آصف زرداری ، اچک زئی، شہباز شریف اور ان کے سیاسی جھاڑ پوش ملازمین ہوں گے ،خدارا کب ہم کو شعور آئے گا کہ پاکستان کے نصیب میں چور ،ڈاکو، لٹیرے، خائین کب اور کس وقت ہم پر مسلط ہوئے اور کیوں کر ہوئے عالم ارواح میں قائد اعظم کے ساتھی ان سے پوچھتے تو ہوں گے جناح کیا غلطی تم نے اپنے رب کے حضور کی کہ اتنے بڑے معرکہ کے بعد تم کو اتنی چھوٹی قوم کیوں کر دی جن کو اپنی سیاسی قیادت کا شعور ہی نہیں ہے ،کوئی قوم کو لوٹنے والا ڈاکو ہے ،کوئی دھلے کا چور، تو کوئی اربوں کا چور ہے، آصف زرداری تو ان ناموں سے بالا تر ہے اس کو تو شہنشاہ کرپشن کہنا بیجا نہ ہو گا ، مولانہ ڈیزل جو ہندوستان کے پیسوں کے سر پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے یارانِ سیاست کچھ تو سمجھو اور اپنی عقلوں کوجھنجھوڑو کہ یہ ہمارے رہنما نہیں ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں ۔
قارئین وطن! میرا پھر وہی سوال کے قائد اعظم سے کوئی ایک غیر ارادی طور پر غلطی ہو گئی کہ انہوں نے جرنل ایوب خان کی سہی طور پر سرزنش نہیں کی اور اس نے ایسا بانیان پاکستان سے فوج کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی پاکستان کی سیاسی بساط لپیٹ کر تمام یونینسٹوں کو جو پاکستان کے قیام کے خوف سے مسلم لیگ کا لبادہ اوڑھ کر اپنی بغلوں میں چھریاں چھپائے بیٹھے تھے کو استعمال کر کے ہم پر وارد کیا اور یہ چور ڈاکو خائین ان کا دیا ہوا پروڈکٹ ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یارانِ سیاست اپنی عقلوں پر پڑے قفلوں کو نہیں کھولتے یہی لوگ ہمارا مقدر رہیں گے میری ہر سانس پر آپ لوگوں سے استدا ہے کہ اب بہت ہو چکی پاکستان کے ساتھ اب آگے بڑھیں اور ان مسلط کردہ نام نہاد سیاسی چہروں کو کچل دیں اور خاص طور پر ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے جب ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی مکمل طور پر اس مافیا کہ گرداب میں ہے ،اربوں کے چور ان کے نرم خو رویہ کی وجہ سے آزاد ہیں اور سو، دوسو روپے کی چوری کرنے والا پابندِ سلاسل ہے ۔
قارئین وطن! میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری سیاست میں ناکامی کی وجہ میری غربت ہے اور میں نے بڑے سیاست دانوں کو قریب سے دیکھا اور کئیوں کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل رہا، اس لیے اس فن سے آشنا نہیں تھا کہ فٹ فٹ لمبے کباب کھلاتا، بڑے بڑے قیمتی تحفے لے کر دیتا اور ان کے بستروں کو نرم گرم کرنے والی سہولیات فراہم کرتا اور نہ میرے پاس منی لانڈرنگ کی مشین تھی، لہٰذاا تنگ دستی گر نہ ہوتی تو ہم بھی بہت بڑے سیاست دان ہوتے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے بے باکی کا تھوڑا سا خزانہ عطا کیا کہ اپنا معافی الا ضمیر بیان کر دیتاہوں، بہت سی جاگتی آنکھیں اور کھلے کان جانتے ہیں کہ شہباز شریف کہ منہ پر اس وقت چور چور کہا شہباز شریف چور ہے بھئی چور ہے اور اس نعرہ میں میری بیگم اور شہر کی جیتی جاگتی شخصیت شاہد نواز چغتائی میرا ساتھ دے رہے تھے ، آئیں آج پھر ان چوروں، ڈاکوئوں اور خائین لوگوں کے خلاف آواز بلند کریں جو عالم ارواح میں قائد اور ان کے ساتھیوں تک پہنچے اور زمین پر اعلیٰ عدلیہ تک ہماری چیخ و پکار پہنچے ،آخر میں میں خواتین و مردصحافیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنی تحریر و تقریر میں خواتین کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں ،نوازش ہوگی کہ جن کے لئے آپ خاتون اول کی توہین کر رہے ہیں وہ بھی شیشے کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک استدعا چیف جسٹس پاکستان سے کہ قاضی عیسیٰ نے جس حدیبیہ پیپر ز کا کیس بند کر دیا ہے اس کو ری اوپن کریں قوم پر ایک احسان ہو گا یارانِ سیاست مجھ سے بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں ،بس اتنا سا گلہ ہے۔
٭٭٭