شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
بہت شور سنتے تھے ہاتھی کی دُم کا، جو دیکھا تو سالے کے سُتھلی بندھی تھی، ہماری اپوزیشن پارٹیاں اب اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ وہ جلسے میں آنے والوں کو ہی اپنا ووٹ سمجھ لیتے ہیں ان کی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کامیاب جلسہ کرنا ہی کامیابی کی نشانی نہیں ہے، کامیابی ووٹ حاصل کرنے کا نام ہے، جہاں آپ جیت جاتے ہیں وہاں دھاندلی نہیں ہوتی اور جہاں آپ ہار جاتے ہیں وہاں دھاندلی شروع ہو جاتی ہے، جو دعوے ہمارے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کئے تھے کہ ہم گلگت میں الیکشن جیتنے کے بعد وفاق میں بھی جیتیں گے اور سلیکٹڈ وزیراعظم کو فارغ کر دینگے اور اسی طرح ن لیگ کی مریم نوازنے فیشن شوز کئے اور گلگت کے عوام کو خُوب باغ دکھائے اور بڑے بڑے دعوے کئے گئے لیکن وہاں کی عوام کو معلوم ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے وہاں حکومت کی ہے اور وہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی قابل قدر کام نہیں کئے گئے جس کی بناءپر ان کو کامیاب کروایا گیا اس لئے دوبارہ وہ جیت نہیں سکے، لیکن پی ٹی آئی کے لوگوں کو دوبارہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لوگوں نے کام کیا اور وہاں کے لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ کس نے ان کے مسائل کا حل کیا، ورنہ دوبارہ ان کو کامیابی نہیں مل سکتی تھی، اس لئے ہماری دونوں جماعتوں کو اعتراف کر لینا چاہیے کہ عوام بے وقوف نہیں ہیں چاہے آپ کتنے لوگ ہی جمع کر لیں، لیکن آپ کو کامیابی نہیں مل سکتی، اب یہ سیاست ختم کر دینی چاہیے کہ اگر جیت گئے تو ایمانداری اور اگر ہار گئے تو بے ایمانی ان دونوں جماعتوں کو سیٹیں بھی اُسی حساب سے ملی ہیں، کیونکہ ن لیگ کا کردار لوگوں کی سمجھ میں آگیا ہے جس طرح ہمارے سابق وزیراعظم جو تین بار نکالے گئے اور اب پھر وہ چاہ رہے ہیں کہ ہماری فوج کو نشانہ بنا کر اپنی سوچ کو ہماری عوام پر مسلط کر دیں جبکہ یہی چیز ان کیلئے دُشواریوں کا باعث بن گئی ہے اور ہماری قوم کسی طرح اپنی افواج کے بارے میں ایسی باتیں سننے کو تیار نہیں ہے آپ ان جرنلوں کے بجائے افواج پاکستان کیخلاف باتیں کریں تاکہ ہمارا پڑوسی ملک ان باتوں سے فائدہ اُٹھا کر اپنا پروپیگنڈا پھیلائے یہی باتیں ہیں کہ ہمارے اندر ہی میر جعفر اور میر صادق اور اب میر ایاز صادق جیسے لوگ موجود ہیں اگر ایاز کو نکال دیں تو وہ بھی میر صادق بن جاتے ہیں کیونکہ میر اور صادق دو لفظ تو ان کے موجود ہیں۔ جلسہ تو ہمارے پی ایس پی کے مصطفی کمال نے بھی کراچی میں کر کے دکھا دیا جو ہمارا میڈیا بتا رہا ہے کہ وہ ان پندرہ جماعتوں کے جلسے سے بڑا جلسہ تھا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مصطفی کمال کو کراچی کے عوام ووٹ بھی دینگے۔ جلسے تو کوئی بھی کرے لوگ آجاتے ہیں، ایک طرف وائس آف کراچی کے بینر پر کراچی کے لوگوں کو ایک بینر پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح غوث نصرت ندیم، واسع جلیل کوششیں کر رہے ہیں اب یہ نہیں معلوم کہ کونسی ایجنسی مصطفی کمال کےساتھ ہے اور کونسی ایجنسی حیدر عباس رضوی کےساتھ کیونکہ پہلے وہ آئے تھے اور دوسرے روز ہی دوسری ایجنسی نے ان کو واپسی کر دیا تھا اب پھر آگئے ہیں اور کب تک واپس ہوتے ہیں، کوششیں تو ہو رہی ہیں، اللہ کرے کہ وہ تمام پارٹیاں جو بنا دی گئی ہیں وہ ایک پلیٹ فارم پر آجائیں لیکن لگتا نہیں ہے کہ کراچی کی عوام انہی لوگوں کو دوبارہ اپنا رہنما بنا لے جبکہ مصطفی کمال نے خالد مقبول صدیقی کے بارے میں جو باتیں کی ہیں میرے خیال میں اور میری معلومات کے مطابق خالد مقبول صدیقی وہ واحد لیڈر ہیں جن کا دامن صاف ہے اور وہ کسی طرح بھی کرپشن میں شامل نہیں تھے اب تو نئی قیادت کو آنا چاہیے جن کو کوئی ڈر یا خوف نہ ہو تاکہ اس کو نہ ڈرایا جا سکے نہ دھمکایا جا سکے، ایجنسیوں کے پاس ہمارے تمام لیڈروں کی فائلیں ہیں اور وہ جب چاہیں ان کو کھول سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کیلئے تو سب کو یکجا ہونا ہوگا، آنے والے حالات کراچی میں خراب حالات پیدا کر سکتے ہیں اس کیلئے کراچی صوبہ ہی ہمارے وفاق کو بھی قائم رکھ سکے گا، اس کیلئے کم از کم کراچی صوبہ پر تمام جماعتوں کو ایک ہونا پڑے گا ورنہ پاکستان کی سیاست جس سطح پر چل رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے، کیونکہ ہمارے اندر ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں ان کا سدباب ضروری ہے۔
٭٭٭