بچپن سے امروز ،مشرق ،نوائے وقت اور جنگ کے بچوں کے صفحات پڑھنے کا عادی تھا پھر جب ہوش سنبھالا تو اخباروں کا ایسا چسکا پڑا کہ سلیبس کی کتابیں پڑھیں یا نہ پڑھیں پر میٹریمونیئل دے لیکر آڈیٹر کی ڈاک تک سب کچھ ہضم کر لیا جاتا ،ریڈیو، ٹی وی کی گھر میں اجازت نہیں تھی لیکن پہلے گھر میں ریڈیو آیا تو سات بجے کی بچوں کی کہانی کے ساتھ گانے اور خبریں سننے لگے لیکن پھر جب بلیک اینڈ وائٹ ہیٹاچی کی آرتی اتری تو بسم اللہ سے فرمان الٰہی دیکھ کر ہی سکون ملتا آجکل فیس بک اور یو ٹیوب سے فرصت مل جائے تو کبھی کبھی کوئی ڈھنگ کا کام بھی کر ہی لیتے ہیں ۔سی ایس ایس کی تیاری کے دوران جرنلزم پڑھنے کا اتفاق ہوا، سی ایس ایس تو نہیں ہوسکا جرنلزم اور پنجابی کے ساتھ اچھے نمبروں میں بی اے ہوگیا ،جرنلزم پر درسی کتاب میں زرد صحافت بارے معلوم ہوا کہ کس طرح صحافی مال بناتے ہیں پہلے بھی نو بجے اردو کا خبرنامہ اور سات بجے شائستہ زید کو سننا کبھی نہ بھولے تھے مگر مشرف کے دور حکومت میں شیخ رشید نے جب ٹی وی چینلز کے پرمٹ بانٹے تو ہالا لا لا کھمبیوں کی طرح نیوز چینلز آگئے ، پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا ایک پاور فل میڈیا حکومتیں گرانے اور بنانے کے دعوے کرنے لگا ،نواز شریف کے دور حکومت میں اس میڈیا نے آخیر کر دی، مراعات ،اشتہارات، پلاٹ ،دورے، عمرے اور حج کروانے تک سے نوازہ جانے لگا ۔نواز شریف کے جانے کے بعد عمران خان حکومت نے بچت متعارف کروائی، حکومتی اشتہارات میں کٹ لگا عمران خان تو خود ایک چلتا پھرتا اشتہار ہے ،اسے ان چونچلوں کی ضرورت بھی نہیں تھی، ان کے مداحوں کی تو پسند ہی کچھ اور ہے مگر ان کے مخالفین بھی مشہور ہو جاتے ہیں، عمران جہاز بھر کر صحافی ساتھ لے جانے کی بجائے خود عام ایئرلائن سے سفر کرنے لگا ،ٹی اے ڈی اے بند نذرانے ،حج، عمرے بند، بعض اخبار تو صرف کاغذوں پر ہی تھے مگر جی بھر کے اشتہارات لیتے تھے ،سب کی چھٹی ہوئی، چھوٹے موٹے چینلز بھی بند ہونے لگے ،جو چل رہے تھے وہ بھی کسمپرسی میں پر جن کے منہ کو خون لگا تھا ان کو خوراک ملتی رہی، ان میں سے کچھ کو اپوزیشن نے سنبھالا دیا ،وہ چلتے بھی رہے اور خان حکومت پر بے جا نقطہ چینی بھی، بڑے بڑے اینکرز ایکسپوز ہونے لگے ۔ریٹنگ کم پڑنے لگی ،تنخواہوں میں کٹ لگنے لگا ،کئی ایک کی تو چھٹی بھی ہو گئی ،ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ خان سوشل میڈیا کا وزیر اعظم ہے ،سوشل میڈیا نے یہ سچ کر دکھایا، اب عمران خان کے شیدائی سوشل میڈیا پر خان کی کارکردگی کے گن پہلے سے بھی زیادہ گانے لگے جب الیکٹرانک میڈیا کے گرکھے باز نہ آئے تو یوٹیوب چینلز بننے لگے ان میں سے بہت سے ایسے چہرے نکل آئے جنہوں نے مشہور و معروف اینکرز کی طوطی بند کر کے رکھ دی انہیں میں سے اب کئی ایک بل کے بٹن کو دبانے کی گزارش کرتے نظر آتے ہیں، عوام صحیح خبر اور مثبت تجزیے سننا پسند کرتی ہے بھلے مرچ مصالحہ بھی ساتھ ملے ،سانچ کو آنچ نہیں ،دنیا بھر میں صرف پاکستانی میڈیا ہی ایسا میڈیا ہے جہاں خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کو سب سے زیادہ اشتہارات ملتے ہیں ،خبروں کی تصدیق کے نت نئے زریعے موجود ہیں ،جھوٹے کا منہ کالا ہوتا ہے ،زرد صحافت کے دن گئے ہاں مگر روٹی روزی چلتی رہنی چاہئے۔
٭٭٭