نہ جانے کس گلی میں ؟

0
126
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! اپنی مٹی کو خیر باد کر کے جہاں تقدیر نے آپ کا روز گار لکھا ہوتا ہے وہاں کے لئے قدم خود بخود اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور اب ایک مہینہ گزارنے کے بعد شہرَ روز گو روانگی کا سفر کچھ دنوں میں شروع ہو جائے گا میرے ایک ہمسفر دوست “ میاں بل گیٹس” ڈی ایچ اے فیز6 میں 51 منزلہ اپارٹمنٹ بلڈنگ کی تیاری کا جائیزہ لینے کے لئے مجھے اپنے ساتھ گوہر علی خان سیکرٹری جرنل پاکستان کونسل مسلم لیگ کی گاڑی میں لے گئے تھے چند روز پہلے میں نے خان صاحب سے گزارش کی تھی کہ مجھے روٹس پرانی انار کلی میں جوتوں کی دوکان پر لے چلیں میں نے اپنے کولیگ شعیب ملک صاحب کے لئے پشاوری چپل لینی ہے – میاں صاحب نے کہا آپ کو اچھی چپل “بازارِ ح±سن “ سے ملے گی، قدرتی طور پر فیز ۶ سے فارغ ہوئے تو میاں صاحب نے خان صاحب کو کہا کہ رنگ روڈ پر گاڑی ڈالو سردار صاحب کو بازار حسن لے چلیں انہوں نے چپل خریدنی ہے جب ہم حاجی چپل والے کی دوکان پر پہنچے تو ہر کوٹھے کو ویران پایا کہاں ہم بازارِ حسن “ ح±سن کی دیویوں “ کو دیکھنے جایا کرتے تھے ا±ن کی سریلی آوازوں کو سنتے تھے، اب نہ وہاں ابابیلیں تھیں نہ ح±سن تھا ،نہ سریلی آوازیں تھیں نہ میرے دوست شاہ جی باکسر کی چائے کی دوکان تھی نہ میرا سینٹ انتھونی اسکول کا کلاس فیلو تجمل حسین تھا، بس پھجے کے پائے کی دوکان موجود تھی لیکن وہ گرم جوشیاں نہیں تھی بل گیٹس صاحب نے تین جوڑے پشاوری چپل کے لئے میں نے بھی اپنے پوتوں کے لئے اور شعیب صاحب کے لئے چپل اٹھائی اور ویرانیوں کو دیکھتے دیکھتے حضرت داتا گنج بخش کے دربار کے باہر رک کر فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھائے، بھاٹی چوک کی سجی دوکانوں کو نگاہ بھر کر دیکھا بھنگی توپ اسی شان سے استادہ تھی پھر لکشمی چوک پہنچے میاں بل گیٹس نے کشمیری دال چاول اور طباق کے چرغہ سے تواضع کی اور شہر لاہور کی سیر کا اختتام میں نے بشیر بدر کے شعر کو گنگناتے کیا!
ا±جالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
قارئین وطن! آئیے اب ذرا فارن فنڈنگ کا اپوزیشنی شور سنتے ہیں اور ا±ن کِے من پسند اینکروں کا اور مریم صفدر نواز شریف کی بیٹی مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کی تھرڈ ریٹ قیادت نے الیکشن کمیشن کے باہر جو آسمان سر پر اٹھایا ہوا کے یہودی اور بھارتی لابی ± نے عمران خان کو کروڑوں ڈالر کے فنڈ دئیے ہوئے ہیں کا تماشہ ٹی وی پر دیکھا اور اس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ عمران خان کو “بیری شمٹ “ نامی یہودی کی لا فرم نے لاکھوں ڈالر کے فنڈز دئیے ہیں اور آر ایس ایس کے ایک نمائیدہ نے بھی ، اس معاملہ کو ایک بار پہلے بھی اچھالا گیا تھا لیکن کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا جبکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی قصہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امریکہ میں ایک عہدیدار “ آصف چوہدری “ نے عمران خان کے لئے ہونے والی فنڈ ریزنگ میں اپنی جیب میں پڑے ہوئے اپنی لا فرم جس کے وہ پاٹنر اور ایڈ مینسٹریٹر بھی ہیں نے اپنے حصہ کا “دو سو ڈالر” کا چیک دیا اور میمو میں اپنا نام بھی درج کیا اور اسی طرح انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کے لئے بھی تقریباً ۹ سو ڈالر کا چیک دیا جس کو لاکھوں ڈالر بتائے جاتے ہیں عمران کے فنکشن کے منتظمینوں سے ایک غلطی ہو گئی کہ ان کو بیری آر شمٹ کا چیک لینا ہی نہیں چاہئے تھا اس لئے نہیں کہ وہ یہودی تھا اس لئے کہ کمپنی کا چیک تھا حالانکہ وہ آصف صاحب کی اپنی کمپنی کا چیک تھا لیکن اتنے رش میں کس کو ہوش رہتی ہے چونکہ اس چھوٹی سی بات کا پتنگڑ بنانا تھا اور مریم صفدر کے ہاتھ ایک کھلونا لگ گیا تھا جس کو وہ جھنجھنا سمجھ کر کھیل رہی تھی جبکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ا±س کا باپ نواز شریف اور ساتھ کھڑے ہوئے مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی فارن فنڈنگ کی مرتکب ہوئی ہے – اور اس بار بھی کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا ۔
قارئین وطن! مجھے زیادہ حیرانگی بڑے بڑے ٹی وی اینکروں کی عقل پر ہوئی کہ اللہ کے بندوں اپنی تحقیق تو کر لو شور ڈالنے سے پہلے لیکن وہ تو نواز شریف کے بندے تھے انہوں نے وہی لائین ٹو کرنی تھی جو ا±ن کا ماسٹر چاہتا تھا حالانکہ کئی ایک دو اینکروں کو اس ناچیز بندے نے حقیقت سے آشنا کرانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنے کان اور آنکھیں بند کی ہوءتھیں۔اس وقت ملک میں سیاسی پولارائزیشن کو ختم کرنے کے لئے سیاسی سوچ و فکر رکھنے والوں کی ضرورت ہے لیکن افسوس کہ آگے بڑھ کر کوئی اپنا کردار ادا نہیں کر رہا میری تو اللہ پاک سے یہی دعا ہے کہ کھلی آنکھوں کو بینائی دے –
قارئین وطن! ہمارے سو کالڈ دانشور براڈ شیٹ اسکینڈل کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو فارن فنڈنگ کے ساتھ ہو رہا ہے بجائے اس کہ کہ وہ قوم کی دولت کو لوٹنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کریں الٹا ا±ن کو ڈیفنڈ کر رہے ہیں اور اِن لوگوں کو تشت از بام کرنے والے کو سرکس کا بندر بنا کر نچا رہے ہیں جب خادم ، وطن میں آباد یارانِ سیاست سے ان موضوعوں پر اپنی سوچ کا اظہار کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں بھاگو یہاں سے امریکن ہمیں بھاشن مت دو ہر شخص اپنا سچ اور اپنا جھوٹ سننا چاہتا ہے بس یہی سوچ کر کہ اپنے شہر کے بازاروں گلیوں اور باغوں کی حسین یادوں کو اپنے ساتھ لے کر وطنِ روز گار کی طرف کوچ کرو!
ا±جالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
بس یہی اپنے ساتھ لے کر واپس جا رہا ہوں-
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here