Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
ماضی میں پاکستان کی دو مرتبہ مسلم دنیا کی واحد خاتون منتخب وزیراعظم بےنظیر بھٹو شہید نے امریکی مشہور صحافی مارک سیگل کو اپنا وصیتی بیان دیا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو میرے قاتل جنرل مشرف، جنرل گل حمید مرحوم، بریگیڈئر اعجاز شاہ اور موجودہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویزالٰہی ہونگے۔ جس کی بنا پر مرحوم پر پہلے 18 اکتوبر 2007 کو کار ساز کراچی کے مقام پر کاروان جمہوریت پر حملہ ہوا جس میں سینکڑوں جمہوریت کے متوالے شہید ہوئے مگر محترمہ بال بال بچ گئیں۔ آخرکار انہیں 27 دسمبر 2007 کو دن دیہاڑے جلسہ عام کے بعد راولپنڈی کمپنی باغ کی مستقل گاہ بنام لیاقت باغ پر شہید کر دیا گیا جن کے جائے شہادت کو فوری کیمیکل پانی سے دھو دیا گیا۔ ڈیوٹی افسران کے تبادلے کردیئے گئے۔ پوسٹ مارٹم نہ ہونے دیا گیا جس کا آج تک اتا پتہ نہ چل پایا کہ محترمہ کو کن سے کیوں قتل کیا گیا تھا۔ اسی طرح آج پاکستان کی دوسری بڑی ہردلعزیز سیاستدان مریم نواز کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جس طرح بےنظیر بھٹو شہید کو جنرل مشرف ٹولے نے پیشگی دھمکیاں دی تھیں کہ ہم آپ کو پاکستان میں مارنے سے بچا نہیں سکتے ہیں۔ مریم نواز کے والد محترم جلاوطن نوازشریف جو تین مرتبہ ملک کے منتخب وزیراعظم رہ چکے ہیں نے کہا ہے کہ اگر مریم نواز کو قتل کیا گیا تواس کے ذمہ داران جنرل جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید اور جنرل عرفان ٹولہ ہوگا۔ یہ وہ ایف آئی آر بتا دی گئی ہے جس کا اطلاق قانون کے مطابق ہر اس وقت ہوسکتا ہے۔جب ایسا واقعہ برپا کیا جائےگا تاکہ کل کلاں خدانخواستہ ایسا سانحہ پیش آجائے تو قاتلوں کو شناخت کرنے میں ابہام پیدا نہ ہو پائے جس کو فوجداری قانون میں پیشگی موت بیان کہا جاتا ہے۔ جس پر عدالتیں مجرمین کی سزائیں دیتی چلی آرہی ہیں تاہم ماضی میں پاکستان کے سیاستدانوں کے ساتھ سانحات پیش آچکے ہیں۔ جس میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو میڈیکل سہولتوں ایمبولینس اور ڈاکٹروں سے محروم رکھ کر گاڑی پنچر ہونے پر کراچی بند روڈ پر مار دیا گیا ہے۔وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی باغ پر گولی مار دی گئی۔بانی پاکستان کی سگی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔زیڈ اے بھٹو کو عدالتی سولی پر چڑھادیا گیا ہے۔بےنظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔خیر مرتضٰے بھٹو کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اکبر بگٹی کو پہاڑ کے نیچے دفن کر دیاگیا۔مشہور ترقی پسند رہنما حسین ناصر کو جیل میں مار دیا گیا۔نذیر عباس کو تھانے میں قتل کیا اور نہ جانے کتنے جمہوریت پسندوں کو شہید کیا گیا ہے۔جن کا بیان کرنا مشکل ہو چکا ہے لواحقین روتے پھرتے نظر آئیں۔لہٰذا مریم کو مارنا کوئی چنبہ نہ ہوگا۔جو آج موجودہ آمروں اور چابروں کی نسلوں اور پیروکاروں کے سامنے شیشے دیوار بن چکی ہیں جس سے بڑے بڑے دربان اور بلوان کانپ رہے ہیں۔جو پنجاب کی پہلی دلیر اور بہادر خاتون بن کر سامنے آئی ہے جن کے سامنے ان کے والدین کو رسوا کیا گیا۔والدہ محترمہ مرحومہ کی تیمار داری اور خدمت سے روکا گیا جن کے کارکنوں اور پیروکاروں پر ریاستی تشدد انتہا کو پہنچ چکا ہے۔اسی لیے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی بدرتوں کو برداشت نہیں ہو رہا ہے کہ مریم نواز پاکستان کے عوام کی رہنمائی کر پائے یہی وجوہات میں انہیں روزانہ اپنے گماشتوںاور ایجنٹوں سے قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔تاکہ وہ بےنظیر بھٹو کی طرح سیاست سے باز آجائے مگر مریم نواز نے فاطمہ جناح اور بےنظیر بھٹو کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے جو چاہتی ہیںکہ ملک پر غاصبوں اور ظالموں کا خاتمہ ہو۔پاکستان میں قانون کا بول بالا ہو بلاتفریق اور بلاامتیاز انصاف دستیاب ہو۔پاکستان انتقام گاہ کی بجائے استحکام گاہ بن جائے تاکہ ملک جدید ریاست کی شکل اختیار کر جائے یہاں ریاستی ادارے خودمختار اور آزاد ہوں جس میں طاقتور اداروں کی مداخلت بند ہو جائے یہی وجوہات ہیںکہ آج مریم نواز پورے پاکستان کی مدد پر رہنما بن چکی ہے۔جن کوراستے سے ہٹانے کے لیے بےنظیر بھٹو کی طرح ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔جس کا فرض بنتا ہے کہ عوام مریم نواز کی حفاظت کریں۔ایسے تمام ہاتھوں کو کاٹ کر پھینک دیں۔جو آئے دن سیاست دانوں کا قتل کرتے نظرآتے ہیں۔
بہرحال عورت کو قتل کرنا ایک بزدلی اور بے غیرتی کہلاتی ہے۔جو ایک عورت کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ حالت جنگ میں بھی اسلام نے عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کا منع کیا ہوا ہے۔وہ لوگ جو عورت کو کمزور سمجھ کر قتل کرتے ہیں وہ دراصل پیدائشی بے غیرت اور بے حیا ہوتے ہیں۔جن کا جنرل ایوبخان جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی طرح نام ونشان مٹ جاتا ہے کہ آج ان قاتلوں کا کوئی نام لینے والا نہیں ملتا ہے لہذا اگر مریم نواز کو قتل کیا گیا تو جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور جنرل عرفان نامی قاتلوں کا ناصرف نام ونشان مٹ جائے گا بلکہ قبروں سے نکال کر پھانسیاں بھی دی جاسکتی ہیں۔
٭٭٭